’’ذرا ہٹ کے‘‘

Apr 23, 2009

تنویر حسین
شیخ سعدیؒ کا قول ہے کہ جب تک کوئی مرد بولتا نہیں، اس وقت تک اس کے عیب و ہنر چھپے رہتے ہیں۔ یہ قول ہماری بعض سیاسی پارٹیوں پر سو فیصد صادق آتا ہے کیوں کہ جب تک یہ سیاسی پارٹیاں مال روڈ پر جلوس نہیں نکالتیں، اس وقت تک ان کا بھرم قائم رہتا ہے۔ یہ سیاسی پارٹیاں جتنے بندے ملک کے طول و عرض سے گھیر گھار کے مال روڈ پر لاتی ہیں، اس سے کہیں زیادہ بندے نیاز بٹنے کی جگہ پر موجود ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بڑی سیاسی پارٹیاں بھی ہیں، جنہیں لوگ بڑھ چڑھ کر ووٹ دیتے ہیں لیکن معصوم عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی حکومتوں کے پیچھے مارشل لاء ہاتھ دھو کے پڑا رہا ہے۔ پاکستانی قوم کا اس لحاظ سے جواب نہیں کہ اپنے ساتھ کئے جانے والے احسانات کو فراموش نہیں کرتی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں اپنی موٹر بائیک پر اپنے دوست کے ساتھ جا رہا تھا۔ جونہی ہم ایک انڈر پاس سے گزرے‘ ہمارے دوست نے شہباز شریف زندہ باد کا نعرہ لگا دیا۔ دوسرے انڈر پاس سے گزرتے ہوئے یہی نعرہ میری سماعتوں سے ٹکرایا۔ ہمارے دوست نے فوراً ایک جملہ کہا۔ ہمارے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف صاحب دوسرے سیاستدانوں سے ذرا ہٹ کر ہیں۔ لاہور کی سڑکوں کو کشادہ کرنا، رنگ روڈ کی تعمیر، انڈر پاس، پلوں کی تعمیر گندم اور آٹے کی دستیابی اور دو روپے کی روٹی، سب سے بڑھ کر چور اچکوں ، ڈاکو اور بدمعاش بھائیوں کے لئے شمشیر برہنہ، میں نے عوام کے پسندیدہ وزیراعلیٰ کی شان میں کہے جانے والے جملے کے جواب میں کہا کہ میں نے ان دنوں ’’ذرا ہٹ کے‘‘ عنوان سے ایک کتاب پڑھی ہے۔ یہ کتاب عزیزی یاسر پیرزادہ کی تخلیق ہے۔ یاسر پیرزادہ نے یوں تو اپنے قارئین کے لئے اخبار میں کالم ہی لکھے ہیں لیکن یہ کالم قاری پر اس وقت قیامت برپا کرتے ہیں، جب وہ یاسر کے تخلیقی جملوں پر کہیں مسکراتا ہے اور کہیں اچانک قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں اچانک کسی مزاح نگار کا ظہور مزاح کے چسکاروں کے لئے نیک فال ہے۔ کالم نگاری یاسر کو ورثے میں ملی ہے۔ کیونکہ ان کے والد محترم عطاء الحق قاسمی صاحب نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں کالم نگاری کی ایک طویل اننگ کھیلی ہے۔ اب یاسر پیرزادہ نے بھی گلوز، پیڈز باندھ کر بیٹ تھام لیا ہے۔ ’’ذرا ہٹ کے‘‘ کی شکل میں ایک چھکا لگا دیا گیا ہے۔ جس طرح بندہ اپنے اعمال سے پہچانا جاتا ہے۔ اسی طرح کالم نگار اپنے جملے سے پہچانا جاتا ہے۔ یاسر کے مسرتوں اور خوشیوں سے سرشار جملے ایک دوسرے سے عید ملتے نظر آتے ہیں یاسر کی طنز اور مزاح ہٹ کر ہیں زبان شستہ و برفتہ ہے۔ موضوعات ہٹ کر ہیں۔
مزیدخبریں