پاکستان بھارت پانی تنازعہ

ہماری حکومت پانی کے تنازع کو جس قدر ہلکے پھلکے انداز میں لے رہی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت کا پاکستان کو ریگستان بنانے کا منصوبہ خدانخواستہ کامیاب نہ ہو جائے۔ ہمارے وزیر خارجہ نے فرمایا ہے بھارت کے ساتھ پانی تنازعہ حل کے لئے جامع مذاکرات کی ضرورت نہیں ہمیشہ سب کچھ پڑوسی ملک پر ڈال دیا جاتا ہے ہمیں اپنے گریباں میں بھی جھانکنا چاہئے سبحان اللہ۔ یہ بیاں بھارت کے لئے ہمارا پانی روکنے میں اتنا حوصلہ افزاءہو سکتا ہے یوں لگتا ہے کہ جو بیان بھارتی وزیر خارجہ کو دینا چاہئے تھا وہ ہمارے وزیر خارجہ نے دے دیا۔ ان کا فرمانا ہے کہ فریم ورک پہلے سے ہی موجود ہے۔ جامع مذاکرات کی کیا ضرورت ہے۔ توقع تو یہ تھی کہ وہ کہیں گے کہ اب جامع مذاکرات کی کیا ضرورت ہے، ہمیں گھی ٹیڑھی انگلی سے نکالنا پڑے گا اب پتہ نہیں وہ خود بڑے سیدھے ہیں یا ان کی انگلیاں سیدھی ہیں ہم تو 62 سال سے اپنے ہی گریبان میں جھانک رہے ہیں بھارتی گریبان کا تو ایک بٹن بھی نہیں کھول سکے۔جب فریم ورک موجود ہے تو اس پر عمل ہم نہیں کر رہے یا بھارت نہیں کر رہا اور یہ کیسا فریم ورک ہے کہ جس کے نتیجے میں ہمارے دریا سوکھ رہے ہیں ہماری زمینیں بنجر ہو رہی ہیں، ہم جو دنیا کو کپاس برآمد کرتے تھے آج بھارت نے پانی کے زور پر ہمیں کپاس بھیجنی بند کر دی ہے۔ 62 ڈیم بنانا ان کی دیواریں اونچی کرنا زیادہ سے زیادہ پانی سٹور کرنا دریائے نیلم سے سرنگ نکالنا کیا یہی وہ فریم ورک ہے جس کی طرف وزیر موصوف اشارہ کر رہے ہیں۔ اگر یہی فریم ورک ہے تو ایسے فریم ورک کو ہم نہیں جانتے ہم نہیں مانتے وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم سب کچھ انڈیا پر ڈال دیتے ہیں اور انڈیا ہے کہ ہمارے دریاﺅں میں پانی ہی نہیں ڈالتا، اور ہم انڈیا پر پانی کا مسئلہ کیوں نہ ڈالیں کہ دریا ہماری طرف سے تو نہیں جاتے اس کی طرف سے ہماری جانب آتے ہیں۔ پھر بھی ہم پر الزام ہے کہ ہم پانی گدلا کر رہے ہیں۔ شاید امریکی دباﺅ نے ہمیں اتنا بزدل کر دیا ہے کہ ہمارے وزیروں کے بیانات میں وہ دم خم نہیں رہا جس کی بدولت لبھو رام کے چھکے چھوٹ جاتے تھے۔ اگر وہ کہتے ہیں کہ ملک لوڈشیڈنگ جیسے بحران سے دوچار ہے تو ہم وزیر خارجہ سے عرض کریں گے کہ اس کا سبب بھی بھارت ہے جو ہمارے ڈیموں میں پانی کی سطح بلند ہی نہیں ہونے دیتا یا پاکستان نے اس لئے جنم لیا تھا کہ وہ سب کچھ اپنے اوپر ڈال دے اور کمینے دشمن بھارت کو پنپنے کا موقع دے ہم اپنے چاک گریباں کو کیا دیکھیں ہمیں تو بھارت کی رفوگری سے فرصت نہیں۔ جس قوم کے لیڈر یہ کہیں کہ ثانیہ اور شعیب کی شادی سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ ان کی نا اہلی اور نادانی کے کیا کہنے۔ بھارت نے ہمارے ملک کو دو ٹکڑے کر دیا ہم نے اس کو بھی اپنے اوپر ڈال دیا۔ بھارت نے ہماری شہ رگ پر قبضہ کر لیا ہم نے اسے بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیا اور اب اس نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے کیا ہم اس کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیں۔ پانی کے مسئلے پر جامع مذاکرات کی ضرورت نہیں زور دار تنازعات کی ضرورت ہے۔ وگرنہ ہندو ہماری معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا اور ہم اپنے صد چاک گریبان میں جھانکتے رہ جائیں گے۔ وزیر خارجہ وزارت خارجہ چلا رہے ہیں یا امن آشا مہم انہیں حالات واقعات اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ایسا بیان دینا چاہئے کہ بھارت یہ باور کرے کہ مغلوب بلی اب چھپٹنے والی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پانی کے معاملے پر نہ صرف پوری دنیا کو بتایا جائے بلکہ بھارتی شردھالوﺅں کو الٹی میٹم دیا جائے اگر وہ ہمیں 86 گھنٹے میں ملیا میٹ کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے تو کیا ہم اتنا بھی نہیں کر سکتے۔

ای پیپر دی نیشن