ماں واقعی سب کی سانجھی ہوتی ہے!

کہا جاتا ہے جب کوئی انسان (مسلمان) پیدا ہوتا ہے تو اُس کے کان میں اذان دی جاتی ہے۔ اس اذان کی نمار نہیں ہوتی اور جب انسان مرتا ہے تو اُس کی نماز (نمازِ جنازہ) پڑھی جاتی ہے۔ اس نماز کی اذان نہیں ہوتی۔ گویا زندگی اذان اور نماز کے درمیان وقفے کا نام ہے۔ گزشتہ ہفتے اماں جی دو تین منٹ کے اندر اندر اللہ کے پاس چلی گئیں تو احساس ہوا زندگی اور موت کے درمیان تو اتنا وقفہ بھی نہیں ہوتا جتنا اذان اور نماز کے درمیان ہوتا ہے۔ میں انہیں اچھا بھلا چھوڑ کر ایک دوست کی شادی پر گیا تھا وہاں پہنچا ہی تھا کہ چھوٹے بھائی کا فون آ گیا .... ”گھر واپس آ جا¶۔“ اس کے علاوہ اس نے کچھ نہیں کہا تھا اور میں اپنی ماں کی خیر مانگنے لگا تھا۔ اُس ماں کی جو سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ لالے اجمل نیازی نے جتنی محبت سے اماں جی پر کالم لکھا، ثابت ہو گیا ماں واقعی ایک سانجھا رشتہ ہے۔ اُنہیں ستارہ امتیاز ملا تو اماں ایسے خوش تھیں جیسے یہ اعزاز مجھے ملا ہو اور شاید یہ اعزاز ملا بھی مجھے ہی تھا کہ میرے اور لالے اجمل نیازی کے دکھ سکھ کبھی الگ الگ نہیں رہے۔ پھر صدر مملکت جناب آصف علی زرداری کا فون آ گیا۔ مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی اُن کے لئے کلمہ خیر لکھا ہو۔ اُن کی اعلیٰ ظرفی وہ میرے دکھ کو اس انداز میں محسوس کر رہے تھے جیسے یہ اُن کا اپنا دکھ ہو۔ ماں واقعی سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ آئی بی کے سربراہ، انتہائی نیک نام پولیس آفیسر جاوید نور افسوس کے لئے تشریف لائے، وہ کوئی رسمی کارروائی پوری کرنے نہیں آئے تھے دیر تک بیٹھے اور اماں جی کے ایصال ثواب کے لئے سپارہ بھی پڑھا۔ میں نے شکریہ ادا کیا تو فرمایا ”میری ماں میرے لئے دعا مانگتے ہوئے کہتی تھیں ”میرے پُتر دے سجناں دی وی خیر“ جی ہاں ماں واقعی سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ وطن اور اہل وطن کے لئے امید کی ایک نئی اور شاید آخری کرن، تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تعزیت کے لئے آئے تو گھر میں موجود کچھ لوگوں نے سیاسی گفتگو شروع کر دی۔ انہوں نے کہا یہ موقع نہیں ہے اور پھر بتایا ”کرکٹ میں ملک کا نام روشن کرنے کے لئے انہیں اکثر ملک سے باہر رہنا پڑتا تھا سو وہ اپنی ماں کو اتنا وقت نہ دے سکے جتنا اُن کا حق تھا۔ پھر یہ Guilt انہوں نے اپنی ماں کی یاد میں کینسر ہسپتال بنا کر دور کیا .... یہ ماں کی خدمت سے بڑی خدمت ہے، جس کے نتیجے میں آج تک کئی مائیں اور ان کے بچے موت کے منہ سے واپس لوٹ آئے۔ سیاسی باتوں کو نظر انداز کر کے صرف ماں کو یاد کر کے عمران خان نے بھی ثابت کر دیا ماں سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ خلقِ خدا کے ساتھ محبت رکھنے والے سابق گورنر خالد مقبول کو میں نے ان کی والدہ محترمہ کے جنازے میں دیکھا تھا۔ میری ماں کے جنازے پر بھی وہ ویسے ہی اداس تھے جیسے اپنی ماں کے جنازے پر تھے۔ سابق صدر جناب رفیق تارڑ سے چلا نہیں جا رہا تھا، ایک سچے سیاسی کارکن اصغر بٹ انہیں سہارا دئیے ہوئے تھے۔ میرے گھر سے قبرستان تک کا سفر کوئی آسان نہیں تھا مگر رفیق تارڑ وہاں پہنچے۔ ماں واقعی سانجھی ہوتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف کی والدہ محترمہ بھی کچھ عرصہ قبل انتقال فرما گئی تھیں۔ وہ میری اور اپنی ماں کو یاد کر کے آنسو بہاتے رہے۔ ماں واقعی سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ ہائی کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس چوہدری محمد اعجاز بھی دلاسے کے لئے دیر تک میرے ساتھ رہے۔ وہ ماں کی باتیں کرتے رہے اور انصاف کی۔ اور اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا میں ”ماں کا انصاف“ قائم کر کے دنیا کے تمام مسائل آسانی سے حل کئے جا سکتے ہیں۔ میرے بڑے بھائی ڈاکٹر عامر عزیز نے میری اور اپنی والدہ میں کبھی فرق نہیں رکھا تھا۔ اللہ اُن کی والدہ محترمہ کو زندگی دے جن کی وجہ سے میرا یہ احساس ابھی تک سلامت ہے کہ میری ماں سلامت ہے۔ اماں جی کو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا۔ اماں جی کی زندگی میں وہ جب کبھی گھر تشریف لاتے تو ان کے قدموں میں بیٹھ جاتے اور وہ انہیں ڈھیروں دعائیں دیتیں۔ میری پروموشن پر مبارک کے لئے تشریف لائے تو میرے ساتھ ساتھ اماں جی اور ابا جی کے کپڑے بھی لے آکر آئے۔ ماں جی نے پوچھا ہمارے لئے کیوں؟ فرمایا ”اصل حق تو آپ کا ہے کہ یہ آپ ہی کی دعا¶ں کے نتیجے میں اس مقام پر پہنچا ہے اور ویسے بھی میری خواہش سے زیادہ یہ میری ماں کا حکم تھا“ .... جی ہاں ماں واقعی سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ اماں جی کا جنازہ بہت بڑا تھا وہ جب بھی بیمار ہوتیں میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر زاہد پرویز ان کے لئے ایسی آسانیاں پیدا کر دیتے جیسے وہ ان کی اپنی ماں ہوں۔ وہ ایک بار اُنہیں علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر جاوید اکرم کے پاس بھی لے گئے۔ شاید ان کے حسن سلوک کا اثر تھا کہ اماں کا بلڈ پریشر اور شوگر اس کے بعد نارمل رہنے لگا تھا۔ ماں کے جنازے میں میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے میرے ان دونوں محسنوں نے فرمایا ”تم نے ماں کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔“ عرض کیا کاش خدمت کایہ عرصہ میری زندگی کے آخری لمحے تک طویل ہو جاتا۔

ای پیپر دی نیشن