”پاور مافیا“

Apr 23, 2013

فضل حسین اعوان

ہاتھیوں کی لڑائی میں گھاس کا ستیاناس ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی پاور پالیٹکس میں عوام گھاس کی مانند دو پارٹیوں کی جنگ میں مسلے جا رہے ہیں۔ بجلی کے بحران نے ہر ذی شعور کو چڑچڑا اور ذہنی مریض بنا دیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اس آفت کو اپنے اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کر رہی ہیں۔ اب جبکہ 18 سے 20 گھنٹے بجلی بند رہتی ہے۔ گیس بھی ضرورت کے مطابق دستیاب نہیں ہوتی تو لوگ مرکزی حکومت کا سیاپا کرتے اور بجا کرتے ہیں۔ اس کا فائدہ اس کی حریف پارٹی ن لیگ اور اٹھاتی چلی آرہی ہے۔ اب انتخابات کے موقع پر اس ایشو کو زیادہ ہی کیش کرایا جا رہا تھا۔ اگر مسلم لیگ ن نے بجلی کے مسئلے کو لے کر جسٹس افتخار چودھری کی بحالی جیسا لانگ مارچ کیا ہوتا تو بجلی کے بحران کا طوفان تو تھم جاتا لیکن ن لیگ اس مفاد سے محروم رہتی جو اب اسے مل رہا ہے۔ ایک طبقے کی رائے ہے کہ ن لیگ نے بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ پر دکھاوے کا واویلا کیا ،کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار نہیں کیا۔ بجلی پیدا کرنے کا اختیار صوبوں کو منتقل ہوا اس کے بعد پنجاب حکومت نے کتنی بجلی پیدا کی؟
بجلی و گیس کی قلت کی ذمہ داری سے پیپلز پارٹی کی حکومت راہ فرار اختیار نہیں کر سکتی۔ عوام کو روٹی کپڑے اور مکان کی فراہمی پی پی پی کے منشور کا حصہ ہے لیکن اسے اس نے اپنے ایجنڈے اور ترجیحات میں شامل نہیں۔ اس کا جو ایجنڈا اور ترجیحات تھیں اس پر بخوبی عمل کیا گیا۔ اگر کوئی ادارہ سلامت بچ گیا ہے تو اس کی خوش بختی ہے ورنہ بھٹوز کے جاں نشینوں نے کسی ادارے کو بھنبھوڑنے اور نچوڑنے نے کسر نہیں چھوڑی۔ آج ان کی پالیسیوں کے باعث عوام بلک اور پانچ سال اقتدار میں رہنے والوں کے اکا¶نٹ چھلک رہے ہیں۔ انتخابی مہم میں کل کی کمائی آج بول رہی ہے۔
پی پی پی والے نوٹ کے زور پر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دولت کے بل بوتے پر مٹی کو سونا ثابت کرنے کے کرتب دکھائے جا رہے ہیں۔ پانچ سال میں عوام پر مسلط کیا گیا بجلی کا عذاب ن لیگ کے کھاتے میں ڈالا جا رہا ہے۔ عوام کو باور کرایا جا رہا ہے کہ ن لیگ کی حکومت نے 1998ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کے 1996ءمیں 24 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار کے معاہدے منسوخ کر دئیے تھے ،جس کے باعث بجلی کا بحران پیدا ہوا۔ 1998ءمیں پانی و بجلی کے وزیر راجہ نادر پرویز اور وزیر قانون خالد انور تھے۔ یہ دونوں محترمہ کے معاہدوں کو کرپشن اور کک بیکس کا شاخانہ قرار دیتے تھے۔ مئی 1998ءمیں پاکستان میں دو ہزار میگاواٹ سرپلس بجلی تھی جو بھارت کو برآمد کرنے کی تجاویز پر غور کیا جا رہا تھا۔
نواز شریف حکومت نے کرپشن کے باعث یہ معاہدے منسوخ کئے۔ ان معاہدوں کی رو سے مبینہ طورپرپاکستان کو بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں دگنا نرخوں پر بجلی حاصل ہوتی، جس کی فوری ضرورت بھی نہیں تھی۔ البتہ مستقبل میں ضرورت میں اضافے کو نظرانداز کرنا احمقانہ پن تھا اور ایسی حماقت ن لیگ کی حکومت کی۔ مہنگے اور کرپشن زدہ معاہدے منسوخ کرنے سے قبل ان کا متبادل سامنے لایا جانا چاہئے تھا ۔ایسا ہوتا پی پی پی حکومت بجلی کا خود ساختہ بحران پیدا کرنے سے باز رہتی۔ پاکستان میں حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ضرورت سے زیادہ ہے۔ بحران یہ صلاحیت استعمال نہ کرنے کے باعث پیدا ہوا۔ معاہدے مسلم لیگ ن نے منسوخ کئے، اس کا انتقام پی پی پی نے مسلسل پانچ سال عوام سے لیا۔ پی پی پی نے اس طرح ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی۔ ایک تو بجلی کی پیداوار کے وسائل قائدین نے ہڑپ کر لئے جیساکہ راجہ پرویز اشرف کو سپریم کورٹ نے رینٹل منصوبوں کی کرپشن میں ملوث قرار دیااور دوسرے سارا الزام اپنی حکومت کے خاتمے پر مسلم لیگ ن کے سرتھوپ دیا۔ بجلی کے بحران کو بڑھاوا دینے کے لئے حریفین کی ”نیک نیتی“ شک و شبہ سے بالاتر ہے۔
ن لیگ نے اپنے منشور میں بجلی کی لوڈشیڈنگ دو سال اور پی ٹی آئی نے تین سال میں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔شہبازشریف نے ایک موقع پر کہا کہ بجلی کا بحران چھ ماہ میں ختم کر دیں گے پھرخود ہی مدت دوسال اور بالآخر یہ کہہ کر مزیدبڑھادی کہ اگر تین سال میں لوڈشیڈنگ ختم نہ کرسکا تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ بجلی کی پیداوار کے لئے کوئی منصوبے اور پراجیکٹس لگانے کی ضرورت نہیں۔ پہلے سے موجود پلانٹس چلا دئیے جائیں تو بجلی آج ہی ضرورت سے زیادہ نیشنل گرڈ میں شامل ہو سکتی ہے۔ پھر دو سال اور تین سال کے وعدے کیوں؟ یقین کریں سیاست اسی ڈگر پر گامزن رہی تو کم از کم اگلے پانچ سال میں بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہو سکتی۔
گذشتہ سال ایک کاریگر نے پانی سے کار چلا کر دکھا دی لیکن اس سسٹم کو کمرشل کرنے کی نوبت نہ آسکی۔ اگر پوری دنیا میں گاڑیاں پانی پر چلنے لگیں تو تیل کی کھپت ختم ہو جائے گی۔ پاکستان میں طاقتورعالمی پٹرول مافیا تھرمل منصوبوں کو ہائیڈل پر تبدیل نہیں ہونے دیتا۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کے پیچھے بھی یہی ذہنیت کارفرما ہے۔ پٹرول مافیا انجنوں کو پانی پر کبھی کنورٹ نہیں ہونے دے گا۔ اس کے لئے کھربوں ڈالر کی کمائی سے ہاتھ دھونا ناقابل برداشت ہے۔ پانچ سالہ جمہوری دور کے ابتدا میں چینی کا بحران پیدا ہوا۔ سپریم کورٹ قیمت 45 روپے کلو مقرر کی جو اس بحران سے چند ہفتے قبل 21 روپے تھی۔ چینی مافیا نے سپریم کورٹ کی ایک نہ چلنے دی۔ چینی مافیا کے گُرگے پارلیمنٹ میں تھے کچھ حکومت اور کچھ اپوزیشن میں مگر اپنے مفاد میں سب نے بھائی بھائی بن سپریم کورٹ کے احکامات کی بھد اڑائی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافہ ہوا تو اس سے نجات دلانے کے لئے یو پی ایس کی ”نعمت“ عام کی گئی۔ اس کو چارج کرنے کے لئے بجلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 16 سے 18 اور بیس گھنٹے تک محیط ہوا توجنریٹرز نے وبا کی طرح پھیلنا ہی تھا۔ اب جنریٹر اور یو پی ایس کو صنعت کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ بڑے لوگوں نے کھربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ لوگ پاور مافیا کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ حکومت ن لیگ آئے‘ پی پی پی یا پی ٹی آئی کی یہ پاور مافیا کے سامنے آج بھی بے بس ہیں کل بھی ہوں گے۔
 سستی بجلی پیدا کرنے کے بیسیوں طریقے ہیں۔ ایشیا میں سب سے بڑا نہری سسٹم پاکستان میں ہے۔ دس میل لمبی نہر پر دس پاور پراجیکٹس لگ سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں دریا¶ں اور نہروں کی لمبائی ہزاروں میل ہے لیکن مافیاز ہمیں ان سے استفادہ نہیں کرنے دیں گے۔ سب سے بڑا سوال ہے کہ مافیا ہے کون؟ ہر ایم این اے اور ایم پی اے مافیا ہے۔ انہی میں سے وزیراعظم‘ وزرائے اعلیٰ اور وزیر مشیربنیں گے۔ ان کو کسی اور نے نہیں خود ہم نے منتخب کرنا ہے؟

مزیدخبریں