فیصل آباد میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی معرکوں میں سب سے اہم انتخابی معرکہ پنجاب اسمبلی کے حلقہ 70 میں ہونے کی توقع ہے جہاں مسلم لیگ(ن) کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناءاللہ خاں کا مقابلہ اس مرتبہ ان کے روایتی حریف پیپلزپارٹی کے ملک محمد اسمعیل سیلا کی بجائے ان کے بیٹے ملک فیاض سیلا کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے چوہدری وارث عزیز اور جماعت اسلامی کے سردار ظفر حسین خان سے ہو رہا ہے۔ الیکشن 2013ءکے لئے سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حاجی محمد فضل کریم مرحوم بھی این اے 82 کے علاوہ پی پی70 میں سنی اتحاد کونسل کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ(ق) اور پیپلزپارٹی کے مشترکہ امیدوار تھے مگر وہ شدید علیل ہونے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ رانا ثناءاللہ خاں 18فروری 2008ءکو اس حلقہ سے ایک امیدوار کی اچانک وفات کے باعث پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب نہیں ہو سکے تھے لیکن انہوں نے الیکشن 2002ءکے بعد میاں شہبازشریف کی جلاوطنی اور مسلم لیگ کے کسی دوسرے قدآور لیڈر کی ایوان میں موجودگی نہ ہونے کے باعث مسلم لیگ(ن) کے پارلیمانی اور پنجاب اسمبلی میں متحدہ اپوزیشن کے ڈپٹی لیڈر کے طور پر نہایت فعال کردار ادا کرنے کے باعث پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے میاں محمد شہبازشریف کی انتخابی اہلیت کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہونے کے باعث ان کی انتخابی حیثیت کلیئر ہونے تک بنائے گئے وزیراعلیٰ دوست محمد کھوسہ کی کابینہ میں الیکشن سے پہلے ہی وزیرقانون کا قلمدان سونپ دیا تھا گویا وہ پی پی70 سے بعد میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے تھے جبکہ انہیں صوبائی وزیر پہلے بنا دیا گیا تھا۔ انہوں نے جس وقت پیپلزپارٹی کے سابق صوبائی وزیر ملک محمد اسماعیل سیلا کے مقابلہ میں ضمنی الیکشن لڑا تھا۔ وہ اس وقت پنجاب کے وزیرقانون تھے اور پورے پروٹوکول کے ساتھ انتخابی دنگل میں اترے تھے۔ ان دنوں سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد کے حلقہ 59 میں بھی ایک انتخابی دنگل ہو رہا تھا۔ جس میں پیپلزپارٹی پنجاب کے اس وقت کے صدر قاسم ضیاءاپنی پارٹی کی طرف سے امیدوار تھے۔ یہ صوبائی حلقہ رانا فاروق سعید خان نے قومی اسمبلی(این اے79) اور پی پی59 دونوں سے آزاد امیدوار کے طور پر کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کی رکنیت اپنے پاس رکھ کر ضمنی الیکشن کے لئے خالی کیا تھا۔ رانا ثناءاللہ خاں اور ملک اسماعیل سیلا کے مابین ہونے والا ضمنی الیکشن اور میاں قاسم ضیاءکا پی پی59 کا ضمنی الیکشن ایک ساتھ منعقد ہوئے تھے۔ پیپلزپارٹی پی پی70 میں رانا ثناءاللہ خاں کے مقابلے میں ملک محمد اسماعیل سیلا کو کامیاب دیکھنا چاہتی تھی اور دوسری طرف مسلم لیگ(ن) نے پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت کی خواہش پر پی پی59 میں نیشنل مسلم لیگ کے چوہدری امجد وڑائچ کے مقابلے میں قاسم ضیاءکے مقابلے میں اپنا امیدوار نامزد ہونے نہیں دیا تھا۔ پی پی70 کا 2008ءکا ضمنی الیکشن رانا ثناءاللہ نے جیت لیا تھا۔ انہوں نے اپنا پہلا الیکشن پیپلزپارٹی کی طرف سے لڑا اور جیتا تھا۔ دراصل یہ بھی ایک ضمنی الیکشن تھا اور چونکہ چوہدری شیرعلی قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں بھی کامیاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے پنجاب اسمبلی کا یہ حلقہ ضمنی الیکشن کے لئے خالی کیا تو ملک اسماعیل سیلا نے یہ سوچ کر ضمنی الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا کہ پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت اور ان کا وزیراعلیٰ (غلام حیدر وائیں) تھے۔ ضمنی الیکشن پیپلزپارٹی کے لئے جیتنا ممکن نہیں ہو گا۔ رانا ثناءاللہ اس زمانے میں میاں محمد نوازشریف کے خلاف بیان بازی کے حوالے سے شہرت رکھتے تھے لہٰذا پیپلزپارٹی نے انہیں ضمنی الیکشن میں پارٹی ٹکٹ دے دیا وہ کامیاب ہو گئے۔ پنجاب میں اس دور میں پیپلزپارٹی انتہائی کمزور اپوزیشن تھی۔ اوکاڑہ کے رانا ربانی اپوزیشن لیڈر تھے۔ رانا ثناءاللہ پنجاب اسمبلی میں پہنچے تو انہیں لاءگریجوایٹ ہونے کی وجہ سے پارٹی کا ڈپٹی پارلیمانی لیڈر بنا دیا گیا تھا۔ انہیں آئندہ عام الیکشن میں پیپلزپارٹی نے پنجاب اسمبلی میں ان کی کارکردگی کے باوجود پارٹی ٹکٹ نہیں دیا۔ پیپلزپارٹی نے اس وقت بھی ملک محمد اسماعیل سیلا کو پارٹی ٹکٹ دیاتھا اور رانا ثناءاللہ خاں پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کے باعث پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے برہم ہو گئے تھے۔ اس زمانے میں مسلم لیگ کی طرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار سابق میئر چوہدری شیرعلی تھے۔ انہیں ذیلی حلقے میں ایک فعال امیدوار کی ضرورت تھی۔ انہوں نے رانا ثناءاللہ کو اپنی پارٹی کی طرف سے ملک اسماعیل سیلا کے مقابلے میں ٹکٹ دلوا دیا اور وہ یہ الیکشن جیت کر مسلم لیگ کی طرف سے پنجاب اسمبلی میں چلے گئے۔ یہ سب واقعات 1990ءکے عشرے میں ہونے والے انتخابات میں گزر چکے ہیں لیکن الیکشن 2013ءمیں بھی رانا ثناءاللہ کا پی پی70 میں مقابلہ پیپلزپارٹی کی طرف سے ملک اسماعیل سیلا سے ہی ہو رہا ہے کیونکہ پارٹی کا ٹکٹ اس مرتبہ ان کے بیٹے فیاض سیلا کے پاس ہے۔ رانا ثناءاللہ خاں کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن ایک ساتھ ہونے کی وجہ سے بالعموم اپنے قومی اسمبلی کے امیدوار سے اچھی خاصی سپورٹ درکار ہے کہ شہر کے بزرگ مسلم لیگی چوہدری شیرعلی اس شہر فیصل آباد میں خاصا اثر رکھتے ہیں اور این اے 84 جس کا پی پی70 ذیلی حلقہ ہے وہاں سے شیرعلی کے صاحبزادے اور سابق رکن قومی اسمبلی عابدشیرعلی مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں۔ چوہدری شیرعلی، عابد شیرعلی اور رانا ثناءاللہ میں شدید اختلافات ہیں۔ رانا ثناءاللہ اپنی الگ اور عابد شیرعلی الگ انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ جس کے نقصانات کا ثناءاللہ کو سامنا کرنا پڑے گا کہ پی پی70 میں آرائیں برادری کی اکثریت ہے۔ رانا ثناءاللہ خاں اپنی ہر کامیابی کے بعد اس کمیونٹی کے افراد کو تھانے کچہری کے چکر لگواتے ہیں۔ وہ رانا ثناءاللہ خاں کے خلاف ادھار کھائے ہوئے ہوتے ہیں لیکن چوہدری شیرعلی انہیں رام کر لیتے ہیں۔ اس مرتبہ الگ الگ انتخابی مہم چل رہی ہے تو کیا بنے گا؟ ویسے اس برادری کے افراد ہر دور میں پیپلزپارٹی کے مقابلے میں مسلم لیگ کو پسند کرتے رہے ہیں اس مرتبہ رانا ثناءاللہ خاں کا مقابلہ پیپلزپارٹی کے ملک اسماعیل سیلا کے علاوہ تحریک انصاف کے چوہدری وارث عزیز اور جماعت اسلامی کے سردار ظفر حسین سے بھی ہے۔ جماعت اسلامی کا نظریاتی ووٹ بینک جو اکثر مسلم لیگ نواز گروپ کی انتخابی کامیابیوں میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے۔ اس مرتبہ وہ رانا ثناءاللہ کی بجائے سردار ظفر حسین کو ملے گا۔ سردار ظفر حسین کسان بورڈ کے مرکزی صدر ہونے کے علاوہ جماعت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے سینئر رکن بھی ہیں۔ سردار ظفر حسین فیصل آباد میں ایک فعال سیاسی شخصیت سمجھے جاتے ہیں اور بہت زیادہ نیک نام شخصیت ہونے کے باعث ملک میں اسلامی نظام کے قیام کا خواب دیکھنے والوں کے لئے ایک پسندیدہ امیدوار ثابت ہو سکتے ہیں جبکہ تحریک انصاف نے پی پی70 کے ایک فعال آرائیں گھرانے کے چوہدری وارث عزیز کو پارٹی ٹکٹ دے کر آرائیں رائے دہندگان کا رخ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے زیادہ تر وارث عزیز کی طرف موڑ دیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں کو سو فیصد نظریاتی ووٹ ملیں گے اور اس کے مقابلے میں پی پی70 میں اب تحریک انصاف کا بھی اچھا خاصا ووٹ بینک بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے چوہدری عابدشیرعلی کے مقابلے میں عدنان انور رحمانی سے ٹکٹ واپس لے کر میاں فرخ حبیب کو دے کر نہ صرف چوہدری عابد شیرعلی کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی ہے بلکہ اس کے منفی اثرات کے نتیجے میں چوہدری وارث عزیز کے لئے بھی مشکلات پیدا ہوئی ہے۔ اگر چوہدری وارث عزیز پی پی70 کی رحمانی برادری کو رانا ثناءاللہ سے دور رکھنے اور اس برادری کا ووٹ بینک حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پی پی70 اس مرتبہ رانا ثناءاللہ کے لئے ایک خوفناک انتخابی تعبیر کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ بہرحال گیارہ مئی کو اس حلقہ میں حقیقی مقابلہ ن لیگ اور تحریک انصاف کے امیدواروں کے مابین ہی ہو گا۔