ووٹرز کرپشن کے تجربہ کاروں سے بچیں

لکھنا تو ہم چک شہزاد کے مکیں پر چاہتے تھے مگر پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز کے ”جہازی سائز“ اشتہاروں نے ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرالی۔ اشتہار کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ ہر شحض فوری اس سے متاثر ہو جائے۔ ویسے تو پی پی اگر ایسے اشتہارات نہ بھی دیتی تو ساری قوم ان کی پانچ سالہ کارکردگی سے بے حد متاثر ہے۔ وہی متاثرین اب تک سڑکوں پر لوڈشیڈنگ کا ماتم کرتے نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے منشور کا جواب اشتہارات میں دینے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ جس میں دونوں پارٹیوں نے بالترتیب دو اور تین برسوں میں بجلی کے بحران کو ختم کرنے وعدہ کیا ہے۔ جس کا پیپلز پارٹی نے اشتہاری زبان میں جواب دیا ہے کہ ”بجلی وعدوں سے نہیں بنے گی جناب! اور حقائق بیان کرتے ہوئے یہ دعوی کیا ہے کہ ان کے 24578 میگاواٹ کے پراجیکٹس کے بل بوتے پر دونوں سیاسی جماعتیں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے وعدے کر رہی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان اشتہارات کو اخبارات کے صفحہ اول سے شروع کرکے‘ پچھلے اور اندرونی صفحات تک شائع کرا کے اپنی کارکردگی عوام کے روبرو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ہم حیران ہیں کہ پی پی حکومت میں اگر یہ سب کچھ ہوا ہے تو عوام اب تک لوڈشیڈنگ کے خلاف ”سینہ کوبی“ کیوں کر رہے ہیں۔ لاہور جسے پنجاب کے دل میں بیس سے بائیس گھنٹے کی لوڈدشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟ اور تو اور یہ سب کچھ ہمارے چوٹی کے سیاسی لیڈروں کو کیوں دکھائی نہیں دیتا؟
بیشتر سیاسی قائدین جو حکومتوں میں رہے ہمیں انہیں عوام کے اس دکھ کا احساس شاید اس لئے نہ ہو کہ ان کے ہاں جنریٹروں کی کمی نہیں.... نگران وزیراعلی کو بھی شاید ہی اسکا احساس ہو.... ورنہ آصف علی زرداری کو وہ اپنی دوستی کا واسطہ دے کر وزیراعظم کھوسو سے پنجاب کے حصے کی بجلی ضرور ”کھس“ لیتے.... لیکن ”داد“ دینی پڑتی ہے! آصف زرداری پارٹی کے ” عزم “پرکہ وہ پھر بھی اتنے بڑے بڑے اور مہنگے اشتہارات سے عوام کو مزید متاثر کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور ان اشتہارات پر تصاویر ذوالفقار علی بھٹو‘ بے نظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری کی شائع کی جا رہی ہیں۔ آصف زرداری‘ فریال تالپور یا راجہ رینٹل میں سے کسی کی تصویر نہیں ہے تاکہ عوام بھٹو کے عشق میں ایک بار پھر اس تیر پر ٹھپا لگائیں جو تیر بے بس عوام کے سینوں کو چھلنی کئے ہوئے ہے۔....ع
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
ادھر الیکشن کمشن نے تمام ٹیکس چوروں‘ نادہندگان‘ جعلی ڈگری ہولڈرز کو الیکشن کے لئے ”پاک صاف“ کر دیا ہے.... اگر راجہ پرویز اشرف کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی ہے تو پھر یوسف رضا گیلانی کو بھی موقع دے دیا جاتا۔ الیکشن میں عوام خود ہی ایسے لوگوں کو دیکھ لیتی جنہوں نے گذشتہ پانچ برسوں میں لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ ہم تو یار لوگوں کے تجزیوں پر انگشت بدنداں ہیں جو ڈنکے کی چوٹ پر آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ نون کی حکومت بنتے دیکھ رہے ہیں۔ اب تک مسلم لیگ ن کی کارکردگی اچھی خاصی دیکھی جا چکی ہے۔ اب کی نئی پارٹی کو آزمایا جانا چاہئے.... جعلی ڈگری ہولڈرز کی زیادہ تعداد اب تک مسلم لیگ نون کے کھاتے میں ہے۔ اب انہیں کے عزیز و اقارب یا قائدین کے قریبی لوگوں کو ٹکٹ دئیے گئے ہیں۔ شہباز شریف نے میٹرو پراجیکٹ جیسا بڑا کام کیا ہے۔ اس کی افادیت اپنی جگہ مگر اس رقم سے پنجاب کی کئی سڑکیں دو رویہ ہو سکتی تھیں۔ سستی روٹی سکیم‘ دانش سکول‘ آشیانہ سکیم‘ لیپ ٹاپ جیسے کام محدود طبقے کے لئے ہوئے۔ لیڈر تو وسیع تر تناظر میں اپنی پالیسی پر عملی اقدامات کرتے ہیں۔ لہذا عام آدمی تو اب بھی برے حال میں ہے اور وہ کسی صنعت کار‘ تاجر‘ زمیندار و ڈیرے اور پچھلے پانچ برسوں میں اسمبلی میں رہنے والوں کو ووٹ نہیں دے گا اس بار ووٹ پڑھے لکھے‘ نئے اور مڈل کلاس کے کسی نمائندے کو ملے گا جو پہلی بار اسمبلی ممبر بنے گا جس کا ماضی بے داغ ہو گا اور جو عام لوگوں کے درد کو سمجھتا ہو گا.... لفافہ سیاست کرنے والے راشی‘ کمشن مافیا اور دیگر کرپٹ قسم کے تجربہ کاروں سے عوام کو کچھ نہیں ملے گا ہمیں کرپشن کا تجربہ رکھنے والوں کو نہیں دوسروں کے لئے کچھ کرکے دکھانے والوں کو منتخب کرنا ہے اگر الیکشن ہو گئے تو.... ابھی.... تو الیکشن میں بھی بہت بڑا ”اگر‘ حائل ہے۔

ای پیپر دی نیشن