ن لیگ پی پی پی اور تحریک انصاف میں کانٹے دار مقابلے کیلئے میدان سج گیا

احمد کمال نظامی ۔۔۔۔ فیصل آباد  .......
فیصل آبا د ملک کا تیسرا بڑا شہر ہے جسے شہرکوقومی اسمبلی کے چار اور پنجاب اسمبلی کے8حلقوں میں تقسیم کیا گیاہے۔2005کے بلدیاتی الیکشن سے پہلے فیصل آباد سٹی تحصیل کے ساتھ فیصل آبا صدر تحصیل (قومی اسمبلی کاحلقہ 80اورحلقہ 81) جوشہر کے مضافاتی علاقے اور دیہات ہیں انہیں شامل کرکے شہر کولائلپور ٹاﺅن‘ جناح ٹاﺅن‘ اقبال اور مدینہ ٹاﺅن میں اس طرح تقسیم کیاگیا تھا کہ ان چاروں ٹاﺅنز میں قومی اسمبلی کی چھ اور پنجاب اسمبلی کی بارہ نشستیں ہو گئی تھیں۔ ان چاروں ٹاﺅنز کے علاوہ تحصیل جڑانوالہ دو اور پنجاب اسمبلی کی چار نشستیں ہیں۔ چک جھمرہ ٹاﺅن‘ تاندلیانوالہ ٹاﺅن اور سمندری ٹاﺅن کو قومی اسمبلی کی ایک ایک اور پنجاب اسمبلی کی دو دو نشستوں میں تقسیم کرنے سے فیصل آباد ضلع میں قومی اسمبلی گیارہ اور پنجاب اسمبلی کی 22نشستیں ہوجاتی ہیں اور چونکہ فیصل آبا شہر سے جڑانوالہ تحصیل‘ چک جھمرہ تحصیل‘ تاندلیانوالہ تحصیل اور سمندری تحصیل کے مقابلے میں قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی نشستیں زیادہ ہیں لہذا اسے ضلع فیصل آباد کی بجائے سٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد کے نام دے دیاگیا۔الیکشن 2013کے حوالے سے ہم فیصل آباد سٹی تحصیل یا فیصل آباد شہر میں قائم قومی اسمبلی کے چار اور پنجاب اسمبلی کے آٹھ حلقوں میں انتخابی دنگلوں کا احوال رقمکررہے ہیں۔ان چارنشستوں میں سے الیکشن 2008میں این اے82‘ این اے84اور این اے 85سے مسلم لیگی امیدوارسنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ فضل کریم مرحوم‘ چوہدری عابد شیر علی اور حاجی محمداکرم انصاری کامیاب ہوئے تھے۔ صاحبزادہ فضل کریم کا تعلقات جمعیت علمائے پاکستان سے تھا اور وہ سنی اتحا د کونسل کے چیئرمیں تھے۔ 1990کی دہائی میں متعدد مرتبہ صوبائی اسمبلی کے رکن بنے تھے اور صوبائی وزیر اوقاف بھی رہے تھے اور الیکشن 2002اور الیکشن 2008انہوں نے این اے82سے شیرکے انتخابی نشان سے لڑا تھا اور دونوں مرتبہ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے اپنے انتخابی حرلفوں کو شکست دے کر قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے اور چند سال پہلے مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت سے ان کے تعلقات خراب ہوگئے تھے اور اس مرتبہ وہ این اے 82سے سنی اتحاد کونسل کے انتخابی نشان گھوڑا پر الیکشن لڑنے کی تیاری کررہے تھے کہ ان کو لاحق جگر کی بیماری نے شدت اختیار کرلی اوروہ وسط اپریل اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ان کی علالت کے دوران ہی ان کے صاحبزادے حامد رضا کو ان کی جگہ قومی اسمبلی کاالیکشن لڑانے کافیصلہ کرلیاگیاتھا۔ مسلم لیگ ق کی اعلیٰ قیادت چوہدری برادران اور پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے این اے83میں ان کے خلاف امیدوار نہ لانے کاعہد کیاتھا اور اس کے عوض انہیں اس حلقہ میں شامل پی پی 65اور پی پی 66سے نامزد پیپلزپارٹی اورسٹی ڈسٹرکٹ فیصل آباد سے دیگر نشستوں پر پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے امیدواروں کی حمایت کرنا تھی۔یہ معاہدہ اپنی جگہ قائم ہے اور صاحبزادہ فضل کریم کی وفات کے بعد صدر زرداری نے صاحبزادہ حامد رضا کو تعزیت کے ٹیلی فون میں انہیں اس بات کا بھی اختیار دے دیاہے کہ وہ اگر چاہیںتو پیپلزپارٹی کے انتخابی نشاسن تیر پر الیکشن لڑلیں۔ لیکن انہوں نے سنی اتحاد کونسل کے انتخابی نشان گھوڑے پر سوار ہونا پسند کیا ہے۔ان کے گھوڑے کو مسلم لیگ ن کی طرف سے رانا فضل کو دیئے گئے شیر کانشانہ بنانے کے لئے ذیلی حلقوں پی پی 65اور پی پی 66سے راجہ ریاض احمد اور شکیل شاہد کو تیر چلانے کی ذمہ داری تفویض کی گئی ہے۔راجہ ریاض احمد پنجاب کے سینئر وزیر اور اپوزیشن لیڈر بھی رہ چکے ہیں۔ شکیل شاہدکے والد ریاض شاہد‘ جنرل محمدضیاءالحق کے دور میں ہونے والے پہلے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں سابقہ میونسپل کارپوریشن کے پہلے میئر منتخب ہوئے تھے۔ وہ بعد میںدو مرتبہ پی پی 60سے پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ الیکشن 2002اور الیکشن 2008میں مسلم لیگ ن کے رانا محمدافضل نے ریاض شاہد کے تیر کوشیر کاسینہ چیرنے سے پہلے ہی تور ڈالا تھا۔اس مرتبہ شکیل شاہد کوشکست دینے کی ذمہ داری مسلم لیگ نے دیرینہ کارکن حاجی خالد سعید کوسونپی ہے جبکہ رانا افضل خاں نے شیر کو صاحبزادہ حامد رضا کے گھوڑے کاراستہ روکنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے۔اور اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھانے کےلئے انہوںنے نائب ناظم سٹی تحصیل فیصل آباد الیاس انصاری کو رائے ونڈ سے روحانی و سیاسی رشتہ جوڑنے کی راہ دکھا دی ہے اور وہ الیکشن 2013میں راجہ ریاض احمد کاراستہ روکنے کےلئے پی پی 65 میں ”دھاڑیں “ لگا رہے ہیں لیکن این اے82میں صاحبزادہ حامد رضا کی پوزیشن تاحال مضبوط ہے۔ اس حلقے میں ن لیگ کے پوزیشن زیادہ بہتر نہیں دراصل این اے82کامعاملہ ”شیر “کی دھاڑی اور ”تیر“ کی نشانے بازی تک نہیں رہ گیاہے۔الیکشن 2013میں ماضی کے کرکٹ لیجنڈ عمران خان ‘ حریف سیاست دانوں کی وکٹیں اڑانے اورہروکٹ پرکھڑے ہوکر”بلا“ گھمانے میں‘ پاکستان میں نئی تبدیلی دیکھ رہے ہیں۔ این اے 82میں کیپٹن (ر) نثار اکبر خان وکٹ پر کھڑے ہوگئے ہیں۔ لیکن انہیں مضبوط امیدوار تصور نہیں کیاجارہااور وہ صرف ن لیگ کے ووٹ خراب کریں گے جس کا فائدہ بھی سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا کو ہوگا۔تحریک انصاف نے پی پی 65میں الیاس انصاری کو کچھارمیںبند رکھنے اور راجہ ریاض احمد کے تیر کانشانہ خطا کرنے کی ذمہ داری حماد اللہ نیازی کو سونپی ہے۔ اور پی پی 66میں شکیل شاہد اور حاجی خالد سعید سے دو دو ہاتھ کرنے کیلئے تحریک انصاف کا”بلا“ نجم الحسن المعروف طوطی پہلوان کو تھمایا گیاہے۔ جماعت اسلامی نے این اے 82میںمیاں محمدیوسف ‘ پی پی 65میں مجیب الرحمن بھٹی اور پی پی 66میں میاں انوار الحق کو ترازو تھمائی ہوئی ہے۔ این اے82پیر فضل حق خرگوش کے انتخابی نشان کے ساتھ موجود ہیں۔ ٹیپو سلطان کو مولانا فضل الرحمن نے کتاب تھما کر مقابلے میںکھڑا کررکھاہے۔ سید زوار حسین نے ایم کیو ایم کی ”پتنگ “اڑانے اور ملک محمد صدیق ایڈووکیٹ نے مشرف کا”عقاب “پکڑرکھاہے۔این اے83 میںمیاںعبدالمنان کاشیر دھاڑنے میںمصروف ہے۔ فیض اللہ کموکا تحریک انصاف کا بلا چلانے کی فکر میں ہیں جبکہ چوہدری ممتاز علی چیمہ نے ان دونوں کو اپنے تیر کے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ چوہدری ممتاز چیمہ چند ماہ پہلے تک مسلم لیگ ق کی طر ف سے سٹی ناظم تھے۔پیپلزپارٹی بھی اب وہ پہلے والی پارٹی نہیں رہی۔ این اے83میں بھی ن لیگ کے شیر کو گھائل کرنے والا محمداعجاز ورک موجود نہیں رہا۔ وہ شیر کے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیاہے۔ فیض اللہ کموکا نے ماضی میں کموکا برادری کے پندرہ ہزار ووٹ بینک اور پیپلزپارٹی کے جیالوں کی مدد سے2002میں پنجاب اسمبلی کی نشست جیت لی تھی۔ تحریک انصاف نے ان کی قیمت این اے83کے ٹکٹ کی صورت میںلگائی ہے۔ ا سے پی پی 67میں محبوب عالم سندھو اور پی پی 68میں لطف نذر کی شخصی مقبولیت کانذرانہ ملا ہے۔ میاں عبدالمنان کے ساتھ البتہ ہاتھ ہوگیاہے کہ انہیں پی پی 68میں شیخ اعجاز احمد کی بجائے شیخ محمد یوسف مطلوب تھا۔ جاتی عمرہ نے انہیں شفیق گجر سے بھی محروم کردیا۔ فقیر حسین ڈوگر پی پی 67میں الیکشن 2008میںہار گئے تھے۔ اس مرتبہ حالات بہت زیادہ پرامید نہیں ہیں۔ محبوب عالم سندھو” بلا“ پکڑے ہوئے پورے حلقہ میں گھوم رہے ہیں۔ ممتاز چوہدری کو پی پی 67میں سندر گروپ کے ڈاکٹر منیر ظفر کو قبول کرنا پڑا ہے اور پی پی 68میں رانا فرخ محمود ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اس حلقہ سے میاں ندیم احمدسلیمی ”عقاب “ اڑانے کی فکر میں ہیں اورشہر کی معروف سماجی کارکن سونیا ناز ”چوڑیاں“ پکڑے سوساں روڈ کے آخر ی سرے پر معلوم نہیں۔ میاں عبدالمنان چوہدری ممتا ز علی اور فیض اللہ کموکا میں سے کس کی منتظرکھڑی ہیں۔ مرز اشفیق احمد کوحکومت پنجاب نے تو بسنت بنانے کی اجازت نہیں دیا۔انہوں نے الطاف بھائی ”پتنگ“ اڑانے کافیصلہ کرلیاہے۔جماعت اسلامی کے پروفیسر محبوب الزماں بٹ پی پی 68میں اورمیاں اجمل حسین بدر پی پی 67میں خاصے فعال ہیں۔ اگر ان دونوں نے میاں عبدالمنان کو اور میاں عبدالمنان نے ان دونوں کو سپورٹ کیا تو تینوںکی پوزیشن مستحکم ہوگی۔ این اے84فیصل آبا دشہر کی مرکزی سیٹ ہے۔ اس سیٹ بعد از وفات گولڈ میڈل حاصل کرنے والے عزیز دین گھمن ‘ ان کی مرحومہ بیٹی زہرہ عزیز‘ میاں زاہد سرفراز‘ راجہ نادر پرویز اور مختار رانا جیسے انقلابی لیڈر قومی اسمبلی میں پہنچتے رہے۔ الیکشن 1988میں ملک احمدسعید اعوان ‘ میاںزاہد سرفراز اور راجہ نادر پرویز دونوں کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ 

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...