لاہور (رپورٹ: فرخ سعید خواجہ) یوں تو لاہور میں قومی اسمبلی کے 13 اور صوبائی اسمبلی پنجاب کے 25 حلقے ہیں لیکن لاہور میں مسلم لیگ (ن) کا ماضی کا ٹریک ریکارڈ بہت اچھا ہے اور پچھلے الیکشن میں اس جماعت نے لاہور میں لگ بھگ کلین سویپ کیا تھا۔ اس الیکشن میں بھی چند ایک حلقے ہی ایسے ہیں جہاں سخت مقابلے کی توقع ہے وگرنہ مجموعی طور پر مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری ہے۔ لاہور کے جن حلقوں میں جاندار مقابلوں کی توقع ہے ان میں این اے 122 میں عمران خان اور مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق میں زور دار مقابلہ ہوگا۔ اس حلقے کے دو صوبائی حلقوں پی پی 147 میں جماعت اسلامی کے امیدوار امیرالعظیم، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف دونوں کے ووٹ کاٹیں گے۔ یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار شعیب صدیقی ہیں، پی پی 148 میں ہاکی کے ہیرو چودھری اختر رسول مسلم لیگ ن کے امیدوار جبکہ میاں اسلم اقبال تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ ان دونوں کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ اختر رسول سینئر سیاستدان اور اس حلقہ انتخاب سے پانچ مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی رہے ہیں جبکہ اسلم اقبال بھی یہاں سے 2002ءمیں رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں۔ این اے 122 میں پیپلزپارٹی کے امیدوار بیرسٹر عامر حسن کی کوشش ہے کہ عمران خان اور سردار ایاز صادق کو بھرپور فائٹ دیں۔ این اے 129 میں بھی دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملے گا۔ محمد شہبازشریف اس حلقہ سے امیدوار ہیں۔ ان کے سیاسی قد کاٹھ اور حکومتی کارکردگی کے باعث ان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ یہ تاثر بھی عام ہے کہ آئندہ بھی وہی وزیراعلیٰ پجاب ہوں گے اس سے ان کی حمایت میں بے شمار لوگ مسلم لیگ ن کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے امیدوار طارق شبیر میو کو یہاں اپنی میواتی برادری اور بے نظیر انکم سپورٹ کے تحت ایک ہزار روپے ماہانہ حاصل کرنے والوں کے ساتھ ساتھ پیپلزپارٹی کے ووٹ بنک کے باعث طاقتور امیدوار ہیں۔ این اے 129 میں اصل مقابلہ ان دونوں کے درمیان ہوگا مگر تحریک انصاف کے امیدوار منشا سندھو اور آزاد امیدوار میاں سعید کھوکھر دونوں اطراف سے ووٹ کاٹیں گے۔ منشا سندھو اس حلقے سے پہلے بھی دو تین مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں جبکہ سعید کھوکھر کو جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام (ف) اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تحریک تحفظ پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ مسلم لیگ (ن) اگر سعید کھوکھر کو اپنے حق میں دستبردار کروانے میں کامیاب ہوگئی تو ان کی جیت یقینی ہو جائے گی۔ این اے 130 میں پیپلزپارٹی کی ثمینہ گھرکی اور مسلم لیگ (ن) کے سہیل شوکت بٹ کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ یہاں سے تحریک انصاف کے امیدوار چودھری طالب سندھو اگرچہ ایک مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی رہ چکے ہیں لیکن ان دونوں امیدواروں کے ووٹ کو کاٹ سکتے ہیں ان دونوں کو شکست دینے کے قابل نہیں ہیں۔ این اے 126 میں مسلم لیگ (ن) کے خواجہ محمد حسان پاکستان تحریک انصاف کے شفقت محمود اور جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ میں کانٹے دار مقابلہ ہوگا۔ شفقت محمود کے ساتھ ذیلی صوبائی حلقہ 151 میں میاں محمود الرشید تحریک انصاف کے امیدوار ہیں۔ محمودالرشید اس حلقے کے رہائشی اور سابق رکن پنجاب اسمبلی، سابق کونسلر ہیں۔ مسلم لیگ ن کے امیدوار سید توصیف شاہ ہیں جو کہ سابق نائب ناظم یونین کونسل کے علاوہ وزیراعلیٰ شہبازشریف کے کوآرڈی نیٹر رہ چکے ہیں۔ ان دونوں کے درمیان بھی زبردست مقابلہ ہوسکتا ہے۔ یہاں سے پیپلزپارٹی کے امیدوار فہیم ٹھاکر انتخابی میدان میں نئے ہیں تاہم یہاں اس حلقے میں پیپلزپارٹی کا جوووٹ بنک ہے وہ انہیں ضرور ملے گا۔ این اے 125 بھی ان حلقوں میں شامل ہیں جہاں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف میں سہ طرفہ مقابلہ ہوگا۔ اس حلقہ انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق، پیپلزپارٹی کے نوید چودھری، تحریک انصاف کے حامد خان تینوں مضبوط امیدوار ہیں ذیلی صوبائی حلقوں پی پی 155 اور پی پی 156 میں بھی ان تینوں جماعتوں کے امیدواروں میں گھسمان کا رن پڑے گا۔ جہاں تک دیگر قومی و صوبائی اسملی کے حلقوں کا تعلق ہے ان میں مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بنک کے علاوہ ان کے امیدواروں کے قد کاٹھ بھی زیادہ ہیں۔ لاہور سے قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیوں کے مختلف عمر کے لگ بھگ سو ووٹروں سے ان کی رائے پوچھی گئی تو اکثریت کی رائے تھی کہ پیپلزپارٹی پہلے کی نسبت کمزور ضرور ہوئی ہے لیکن اس کا ووٹ بنک اب بھی موجود ہے جہاں تک جماعت اسلامی کا تعلق ہے وہ اپنے ووٹ بنک کے ساتھ ساتھ ملسم لیگ ن اور تحریک انصاف کے حامیوں کے ووٹ تقسیم کرے گی۔ شہریوں کی اکثریت نے یہ رائے بھی ظاہر کی کہ مسلم لیگ (ن) لاہور سے قومی وصوبائی اسمبلی کی 38 میں سے لگ بھگ 28 نشستیں جیت لے گی۔
لاہور میں مسلم لیگ ن کا پلڑا بھاری‘ چند حلقوں میں سخت مقابلے کی توقع
Apr 23, 2013