مزار اقبال پر نئی زندگی اور یوم اقبال

نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے 21 اپریل یوم پاکستان سے ایک دن پہلے ہمیشہ مزار اقبال پر مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی کی قیادت میں اور شاہد رشید کے اہتمام میں جاتے تھے، اب چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ صدر محمد رفیق تارڑ کی قیادت میں جاتے ہیں۔ تارڑ صاحب اب پاکستان کے صدر نہیں ہیں مگر ہمارے دل کے پاکستان کے صدر تو ہیں۔ اتنے بڑے عہدوں پر فائز رہنے والا خوش قسمت انسان انکسار اور وقار سے بنا ہوا ہے۔ انکسار اور وقار کے امتزاج سے ان کا مزاج بنا ہے۔ وہ اتنے مضبوط صدر تھے کہ جنرل مشرف کا مقابلہ بھی کیا۔ جنرل صاحب آپ کے گھر بھی آئے مگر آپ نے کوئی مراعات قبول نہیں کیں۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے سوچا ہو گا کہ میں تو ابھی ریٹائر نہیں ہوا، مراعات کس بات کی لوں۔ وہ سڑکوں پر بھی نکلے اور آج مزار اقبال پر مودب کھڑے تھے۔
اس بار ان کی گاڑی میں مجھے مزار اقبال تک جانے کا موقعہ ملا۔ رستے میں بہت اچھی گپ شپ رہی۔ تارڑ صاحب گپ شپ میں بہت دل و نگاہ سے شریک ہوتے ہیں۔ فائدہ بھی ہوتا ہے اور لطف بھی آتا ہے۔
ڈکٹر مجید نظامی نے علامہ اقبال ، قائداعظم، مادر ملت اور دیگر اکابرین کی ایک نئی زندگی سے لوگوں کو آشنا کیا جو ہمارے لئے بھی نئی زندگی بن گئی۔ اب بھی نظریہ پاکستان اپنے مشن اور نظامی صاحب کے مقصد کے مطابق آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں جو کچھ مرشد و محبوب ڈاکٹر مجید نظامی نے کر دیا وہ نسلوں تک یاد رہے گا۔ وہ اپنے عہد میں پاکستان کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ اب صدر محمد رفیق تارڑ بھی ان کے راستوں کو آباد کر رہے ہیں۔ کئی لوگوں نے کہا کہ نظامی صاحب علامہ اقبال کے مجاور ہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ میرے لئے یہ فخر کی بات ہے۔
20 اپریل کو مزار اقبال پر بڑی آسودگی اور سادگی کا احساس ہوا۔ تارڑ صاحب وہیں کھڑے تھے جہاں نظامی صاحب کھڑے ہوتے تھے۔ ڈاکٹر رفیق احمد بھی ان کے ساتھ تھے۔ میں ان کے بائیں طرف کھڑا تھا کہ علامہ احمد علی قصوری تشریف لائے تو میں نے اپنی جگہ ان کیلئے خالی کر دی۔ آج بھی دعا علامہ صاحب نے فرمائی۔ پہلے بھی وہی دعا کراتے تھے۔ ان کے طرز خطاب و دعا سے پتہ چلتا ہے کہ دعا عبادت سے بڑھ کر ہے۔ پھولوں کا ایک ڈھیر مزار پر لگ گیا مگر ایک انوکھی خوشبو سے ان کا مدفن ہمیشہ معطر رہتا ہے۔ ممتاز لیبر لیڈر خورشید احمد، انجینئر محمد طفیل، عزیز ظفر آزاد، حنیف شاہد، میاں خدا بخش اور بہت لوگ تھے جو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے آئے تھے۔
مون پبلک سکول راوی روڈ کے 20 بچے بہت ڈسلپن سے خوبصورت یونیفارم میں موجود تھے۔ انہیں دور کھڑا کیا گیا مگر دو بچوں کو میں نے اپنے قریب کھڑا کیا۔ انہی دو بچوں دانیال ذوالفقار اور محمد عمر شاہد نے بڑے جذبے اور معصومیت سے کلام اقبال گا کے سنایا کہ ایک سماں بندھ گیا۔ محترم مرغوب ہمدانی نے بھی کلام اقبال پڑھا۔ وہ ہمیشہ یہ ڈیوٹی نبھاتے ہیں۔ سرور حسین نقشبندی اور اختر حسین شیخ بھی باقاعدہ نظریۂ پاکستان کی محفلوں میں اپنی آواز کا جادو جگاتے ہیں۔
خودی کا سر نہاں لاالہ الا اللہ
سب لوگوں نے لاالہ الااللہ کا ورد کیا تو ماحول بدل گیا۔ تارڑ صاحب نے دونوں بچوں کو دو، دو ہزار روپے انعام دیا۔ ان کے پاس مون پبلک سکول کے چیئرمین محمد ریاض بھی موجود تھے۔ ان کی آنکھوں میں چمک دیکھنے والی تھی۔ ایک سکول کی اتنی پذیرائی دیکھ کر سب لوگ خوش ہوئے۔
محمد ریاض نے ایک اہل اور اہل دل خاتون عظمیٰ لطافت قریشی  کا ذکر بھی محبت سے کیا کہ وہ نوائے وقت پڑھ کر اور آپ کا کالم بے نیازیاں پڑھ کر مجھے سناتی ہیں تو میں نے کہا وہ نظامی صاحب کے بقول ’نوائے وقتن‘ ہیں۔ عظمیٰ بی بی ایک ٹی وی چینل پر بھی میرے ساتھ کام کرتی رہی ہیں۔ وہ دل والے سچے موتیوں سے بھی روابط رکھتی ہیں۔ ہمارے بہت محترم سید پیر کبیر علی شاہ کا بہت ذکر کرتی ہیں، ہم دونوں اور شاہد رشید کی ٹیم کے ساتھ لاہور کے چورہ شریف دربار میں حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ وہ چورہ شریف کے سجادہ نشین ہیں اور اب ایک چورہ شریف لاہور میں بھی بن گیا ہے جہاں میلاد کی محفلیں بھی ہوتی ہیں۔
مزار اقبال دن رات آباد رہتا ہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کی تجویز تھی کہ اسے کچھ وسیع کیا جائے تاکہ لوگوں کو آسانی ہو۔ مزار اقبال پر نظر پڑتے ہی رفیق تارڑ کے دل میں اکابرین کی محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے گا۔ انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے خطیب اور امیر شریعت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے حوالے سے بتایا کہ امیر شریعت نے فرمایا ’’علامہ اقبال کو نہ مسلمان سمجھے نہ انگریز سمجھے۔ انگریز سمجھتے تو انہیں تختۂ دار پر لٹکا دیتے، مسلمان سمجھتے تو کبھی غلام نہ ہوتے۔ ان دنوں بخاری صاحب انگریز کی طرف سے خان بہادر اور سر کے خطاب پر تنقید کر رہے تھے مگر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ خطابات پانے والوں کو اس مرد قلندر علامہ اقبال کی طرح ہونا چاہئے کہ جس نے قرآن کو ڈوب کر پڑھا اور فرنگی عقل و دانش پر ہلہ بول دیا۔
21 اپریل کو یوم اقبال نظریۂ پاکستان ٹرسٹ میں ہوا۔ شاید یہ سب سے بڑی تقریب تھی۔ صدارت حسب روایت صدر محمد رفیق تارڑ نے کی۔ علامہ اقبال کی بہو جسٹس (ر) ناصرہ جاوید اقبال نے ایک خوبصورت بات کی کہ آخری لمحوں میں تکلیف کی صورت میں علامہ صاحب کو گولی دینے کی کوشش کی  گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا کہ میں ہوش و حواس میں موت کا سامنا کروں گا اور اللہ اور حضورؐ کی خدمت میں پیش ہوں گا۔ قیوم نظامی اور ولید اقبال نے بھی اچھی بات کی۔ میں نے کہا کہ ولید اقبال بہت قابل اور کمٹڈ جوان ہے مگر اسے پہلے علامہ اقبال کا پوتا بن کر دکھانا چاہئے اور اپنا نام ولید علامہ اقبال رکھ لینا چاہئے۔ علامہ احمد علی قصوری نے بڑے جذبے سے بات کی۔ ڈاکٹر اکرم شاہ، صاحبزادہ احمد علی، ڈاکٹر پروین خان، صفیہ اسحاق، مہناز رفیع، بشری رحمن، ڈاکٹر رفیق احمد نے بہت اثرانگیز گفتگو کی۔ میں نے کہا کہ علامہ اقبال دھوتی باندھتے تھے حقہ پیتے تھے پنجابی بولتے تھے مگر جب شاعری کرتے تھے تو لگتا تھا کہ آسمانوں سے ان دیکھی دنیائوں سے انہیں آوازیں آتی ہیں، نامعلوم جہانوں سے زخمی پرندے ان کے دل کی جھیل پر اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کی روح سے کوئی سرگوشی کر کے چلے جاتے ہیں اور روانی اور فراوانی سے ایسی باتیں کرتے ہیں کہ حیرت کے مارے دروازے پڑھنے والے پر کھلتے چلے جاتے ہیں۔
یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن
قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن
یہ راز صرف دانائے راز علامہ محمد اقبال کو معلوم تھا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اب کوئی راز نہیں ہے۔ حضرت علامہ کا پیغام لوگوں، بچوں اور عورتوں تک ڈاکٹر مجید نظامی کے راستے پر نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے اہتمام سے پہنچ رہا ہے مگر ضرورت علامہ کے کلام کو دل سے سمجھنے کی ہے اور ان سے روحانی طور پر ہمکلام ہونے کی ہے۔ حضرت علامہ سچے عاشق رسولؐ تھے، ان کے خوابوں کی تعبیر اور قائداعظم کی کوششوں کا ثمر پاکستان ہے جسے میں خطۂ عشق محمدؐ کہتا ہوں۔ یہ ملک ایک دن دنیا کا سب سے بڑا ملک بنے گا اور لوگ یہاں مشورہ کرنے آئیں گے کہ زندگی کو ایک اور زندگی کیسے بنائیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...