عوامی جمہوریہ چِین کے صدر عزّت مآب شی چِن پِنگ اپنی اہلیۂ محترمہ عوامی جمہوریہ چین کی خاتون اوّل پِنگ لِیو آن اور اپنے وفد کے دوسرے ارکان کے ساتھ پاکستان اور پاکستانیوں کے دو دِن مہمان رہے۔ شاعر نے کہا تھا کہ…؎
’’اُڑتے ہوئے دیکھے نہیں کیا آپ نے لمحے؟
اِک روز مرے آپ بھی مہمان رہے ہیں!‘‘
پاکستان کے حُکّام اور عوام سمیت دوسرے طبقے میں نے مہمان عزیز کی وطنِ عزیز کی موجودگی پر بہت خوش ہو رہے تھے۔ اسلام آباد میں اور مختلف نیوز چینلوں کی وساطت سے مُلک کے کونے کونے میں جشن کا سا سماں رہا۔ جنابِ شی چِن پنِگ کی پاکستان اور پاکستان کے عوام سے محبت اور پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے اُن کی خواہشات تجاویز اور منصوبوں کے سِلسلے میں اُن کی گفتگو کی خُوشبو ابھی تک پاکستان کی فضائوں میں رچی بسی ہے۔ کسی پنجابی شاعر نے کہا تھا ۔
’’ جِیوندے رہے تے مِلاں گے لکھّ واری!‘‘
چِین کے صدر نے چِین کے بارے میں علاّمہ اقبالؒ کی پیش گوئی کا ذِکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔ ’’ چِین ایک طاقتور ملک بن کر اُبھرے گا حالانکہ اُس وقت چِینی عوام نے آزادی حاصل نہیں کی تھی‘‘ معزز مہمان کی موجودگی میں 21 اپریل کو علاّمہ اقبالؒ کا یومِ وفات منایا جا رہا تھا اس موقع پر انہوں نے مصّورِِ پاکستان عاشقِ رسولؐ، دانشور، شاعر اور فلسفی کو یاد رکھا۔ جن کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے محمد علی جناحؒ کو اس بات پر راضی کر لِیا کہ ’’آپ ہندوئوں اور مسلمانوں کی تحریک آزادی کا رُخ صحیح سمت میں موڑ دیں اور قیامِ پاکستان کی تحریک کی قیادت کریں!۔‘‘ بعد ازاں مسلمانوں نے غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے نیک سِیرت، صاحبِ کردار اور پُر عزم محمد علی جناحؒ کو اپنا ’’قائداعظمؒ‘‘ اور رہنما بنا لیا۔ عوامی جمہوریہ چِین کے بانی ’’سُرخ فوج‘‘ (Red Army) کی قیادت کرتے ہوئے ’’انقلاب‘‘ لائے لیکن جنابِ قائداعظمؒ نے مسلمانوں کے ووٹ کی طاقت سے ’’انقلاب‘‘ لا کر مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے چھڑا کر پاکستان قائم کر دِیا۔ اُس سے پہلے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ …؎
’’ گراں خواب چِینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے‘‘
چِینی عوام کو جنابِ مائوزے تنگ کی قیادت نصیب ہوئی تو ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے ۔ یوں تو قدیم فارس کی شہزادی شِیریںؔ کا سنگ تراش عاشق فرہاد ؔ بھی کوہِ بے ستون سے نہر کھود کر اُس کے محل تک لے آیا تھا لیکن اگر کوئی قومی لیڈر مُخلص ہو تو اُس کی قیادت میں ہزاروں/ لاکھوں فرہاد اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ قائدِاعظمؒ کے بعد ہمیں کوئی اُن جیسا ’’قائدِ انقلاب‘‘ نہیں ملا۔ اِس کے باوجود اگر دُنیا کی بہت بڑی اقتصادی قوتِ عوامی جمہوریہ چِین کے صدر نے پاکستان کو چِین کا ’’Iron Brother‘‘ بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو چِینی قیادت اور عوام کی طرف سے پاکستان اور اُس کے عوام کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔
پاکستان کے ہر حکمران کو اُس کے عقیدت مند ’’Iron Man‘‘ یعنی مردِ آہن ( لوہے کا انسان) کہتے تھے/ ہیں۔ ہمارے اردو اخبار نے ’’آئرن برادر‘‘ کا ترجمہ ’’فولادی بھائی‘‘ کِیا ہے۔ اچھا ہے ۔ اِس لئے کہ ہر مردِ آہن کے دَور میں بھوکے ننگے اور بے گھر لوگوں کو ’’لوہے کے چنے چبانا پڑتے تھے/ ہیں‘‘۔ انتہائی سخت عُمدہ اور جوہر دار لوہے کو ’’فولاد‘‘ کہا جاتا ہے۔ علاّمہ اقبالؒ نے اپنی نظّم طلوعِ اسلام‘‘ میں ہر مسلمان کو ’’مرغ حرم‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے…؎
’’ تُو اے مرغِ حرم اُڑنے سے پہلے پر فشاں ہوجا!
مصافِ زندگی میں سِیرتِ فولاد پیدا کر!‘‘
’’سیرتِ فولاد‘‘ پیدا کرنا مسلمانوں کے ہر قائد کے لئے لازمی ہے۔ صدر شِی چِن پِنگ نے کہا کہ ’’پاکستان کے پاس میں ’’ Asian Tiger‘‘ بننے کا سنہری موقع ہے اور ہم اس کے لئے بھر پور تعاون کریں گے‘‘۔ اہل یورپ ہمارے جنگل کے بادشاہ ’’شیر‘‘ کو ’’ایشیئن ٹائیگر‘‘ کہتے ہیں۔ وزیراعظم کی صدارت میں سرگرم مسلم لیگ (ن) کا انتخابی نشان ’’شیر‘‘ ہے۔ مسلم لیگ قائداعظمؒ کی وراثت ہے اور اب قائداعظمؒ کی کُرسی پر میاں نواز شریف رونق افروز ہیں اور صدر مسلم لیگ پنجاب کی کُرسی پر میاں شہباز شریف، علاّمہ اقبالؒ کی کُرسی پر تشریف فرما ہیں کہ ایک دَور میں علاّمہ صاحب اس کُرسی پر بیٹھتے تھے ۔
علاّمہ اقبالؒ کشمیری تھے۔ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف بھی کشمیری ہیں لیکن پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جنابِ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں مہمان چِینی صدر سے یہ کیوں نہیں کہا کہ ’’آپ اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے عالمی برادری، خاص طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر دبائو ڈال کر بھارت کومجبور کر دیں کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو اُن کے حقِ خود ارادیت کے مطابق فیصلہ کرنے دیں‘‘۔ عوامی جمہوریہ چِین تو ہر دور میں عالمی سطح پر کشمیریوں کو اُن کا حقِ خود ارادیت دِلوانے کے لئے پاکستان کے مؤقف کی حمایت کرتا رہا ہے۔ جب ’’مُدعّی سُست اور گواہ چُست‘‘ کا معاملہ ہوگا تو مسئلہ کشمیر کیسے حل ہوگا؟ اور اقتصادی طور پر ’’ایشیئن ٹائیگر‘‘ کیسے بنے گا؟
جناب ذوالفقار علی بھٹو کشمیر کاز کے ’’چیمپیئن‘‘ کہلاتے تھے۔ اقتدار میں آکر انہوں نے اور اُن کے بعد پاکستان میں فوجی آمروں اور جمہوری لیڈروں نے اپنی تقریروں اور بیانات میں کشمیریوں کی مظلومیت کی داستانیں تو بیان کِیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کِیا۔ جنابِ بھٹو کے ’’رُوحانی فرزند‘‘ جنابِ آصف زرداری نے صدرِ پاکستان کا منصب سنبھالنے کے فوراً بعد کہہ دیا تھا کہ ’’کیوں نہ ہم مسئلہ کشمیر 30 سال کے لئے مُنجمد کردیں؟‘‘ جنابِ زرداری کے دَور کی وزارتِ امورِ کشمیر اور مولانا فضل الرحمن کی چیئرمین شِپ میں کشمیر کمیٹی نے ، صدر زرداری سے پورا تعاون کِیا اور میاں نواز شریف کے دَور میں بھی وزارتِ امور کشمیر اور مولانا فضل الرحمن جنابِ زرداری کے ’’مِشن‘‘ کو پورا کر رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے چِین کے صدر کے دورہ پاکستان پر میاں شہباز شریف کو ’’Man of the Match‘‘ قرار دے دیا ہے اور کیا چاہیے؟ حالانکہ ڈاکٹر مجید نظامی صاحب کے ’’شہباز پاکستان‘‘ تو عوامی جمہوریہ چِین کے بہت ہی زیادہ دورے کر کے ’’Matchless‘‘ ہوگئے ہیں۔
سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے مہمان صدر کو پارلیمنٹ کا اصل نام ’’مجلسِ شُوریٰ‘‘ بتایا۔ یہ ضروری تھا کہ جب پاکستان میں کوئی فوجی صدر ہو تو ارکانِ پارلیمنٹ کا کام جنابِ صدر کومشورے ہی دینا ہوتا ہے۔ عزّت مآب شی چِن پِنگ نے ہماری پارلیمنٹ کے لئے شمسی توانائی کا تُحفہ دے کر پاکستان میں جمہوریت کو بھی مضبوط کر دِیا ہے۔ اِس طرح جمہوریت کے علمبردار ہمارے تمام لیڈران علاّمہ اقبالؒ کی ہدائت کے مطابق اپنی سِیرت کو ’’سِیرتِ فولاد‘‘ بنا سکیں گے۔ انشاء اللہ! شاعرِ سیاست نے پاکستان اور پاکستان کے عوام کی طرف سے عزّت مآب چینی صدر جناب شی چِن پِنگ کے لئے دو شعر کہے ہیں ۔ ملاحظہ ہوں…؎
تُسِیں تے ہو ساڈے دِل دے ’’King‘‘جی!
شالا مُڑ مُڑ پیار ’’Bring‘‘ جی!
پیار توں وڈّی نہیں کوئی ’’Thing‘‘ جی!
جُگ جُگ جِیو تُسِیں شی چِن پِنگ جی!