لاہور (محمد دلاور چودھری) کراچی کے حلقہ این اے 246 میں آج پولنگ ہونے جا رہی ہے۔ حلقے میں ووٹروں کی کل تعداد ساڑھے 3 لاکھ سے زائد ہے جس میں سے ایک لاکھ 85 ہزار ووٹر لیاقت آباد (لالو کھیت) میں رہتے ہیں اور یہ علاقہ ایم کیو ایم کا مضبوط گڑھ تصور ہوتا ہے اور ہر الیکشن میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عام انتخابات میں اس حلقے میں ایک لاکھ 85 ہزار سے زائد ووٹ ڈالے گئے جن میں سے 139350 ووٹ متحدہ کے اس وقت کے امیدوار نبیل گبول نے حاصل کئے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 75.2 فیصد بنتے ہیں۔ (اس وقت نبیل گبول متحدہ کے ساتھ نہیں ہیں اور نہ ہی یہ ان کا آبائی حلقہ ہے) 11مئی 2013ء میں تحریک انصاف کے امیدوار عامر شرجیل تھے جنہوں نے 32048 ووٹ حاصل کئے تھے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 17.3 فیصد بنتے ہیں۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے امیدوار راشد نسیم (جو اس مرتبہ بھی امیدوار ہیں) نے 10258 ووٹ لئے تھے جو کل ڈالے گئے ووٹوں کا 5.5 فیصد بنتا ہے۔ (جماعت اسلامی نے دوپہر کے بعد الیکشن بائیکاٹ کا اعلان کر دیا تھا۔) اگرچہ اس الیکشن میں بھی متحدہ قومی موومنٹ کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے لیکن تحریک انصاف کا پلس پوائنٹ یہ ہے کہ وہ اپنی جارحانہ حکمت عملی سے (جو کراچی میں متحدہ کے خلاف کم ہی دیکھنے میں آتی ہے اور اس وجہ سے آج کے دن کشیدگی کا خطرہ بھی ہے۔) اس الیکشن کو نہ صرف قومی بلکہ کسی حد تک عالمی سطح پر بھی اُجاگر کرنے میں کامیاب رہی ہے اور اس کا بھرپور سیاسی فائدہ نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک میں حاصل کیا ہے۔ این اے 246 ان علاقوں پر مشتمل ہے کہ جہاں عملی طور پر ایم کیو ایم کی تشکیل ہوئی تھی اور اس کا ہیڈکوارٹر ’’نائن زیرو‘‘ بھی اس حلقے کا حصہ ہے۔ بظاہر نظر یہی آ رہا ہے کہ ضمنی الیکشن میں متحدہ کے امیدوار کنور نوید جمیل کو تحریک انصاف کے امیدوار عمران اسماعیل پر ووٹوں کی برتری حاصل ہو جائے گی اور وہ جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے تاہم اس حلقہ میں ہار جیت سے زیادہ اہمیت ووٹوں کے تناسب کی ہو گی۔ ضمنی الیکشن میں ٹرن آؤٹ اکثر کم رہتا ہے لیکن اگر تحریک انصاف ٹرن آؤٹ بڑھانے میں کامیاب رہی تو یہ اس کی بہت بڑی جیت ہو گی اور اگر ٹرن آؤٹ کم ہی رہا تو نظر اس تناسب پر ہو گی جس سے امیدواروں کو ووٹ ملیں گے یعنی اگر متحدہ 75.2 فیصد کا تناسب برقرار نہ رکھ سکی اور متحدہ 17.3 کے تناسب سے زیادہ ووٹ لے گئی تو نفسیاتی طور پر سمجھا جائے گا کہ کراچی میں تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھ رہی ہے جو متحدہ کیلئے لمحہ فکریہ ہو گا۔ اسی طرح اگر تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدواروں نے بھی مجموعی طور پر 22.8 فیصد سے زائد ووٹ لئے اور متحدہ کو ووٹنگ 75.2 فیصد سے کم رہی تو بھی متحدہ کیلئے یہ مستقبل کی کوئی اچھی نوید نہیں ہو گی۔ اگرچہ متحدہ کے امیدوار یہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ ہمارے لئے پولنگ سٹیشن بدل کر انتظامی طور پر الیکشن میں مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں لیکن یہ جواز گرتے ہوئے تناسب کو سہارا نہیں دے سکے گا کیونکہ پھر یہ سوال بھی اٹھے گا کہ اگر کوئی زیادتی ہو رہی ہے تو ہمدردی کے ووٹ میں اضافہ ہونا چاہئے تھا پھر متحدہ تو خود سندھ حکومت کا حصہ ہے اور حکومتی امیدوار ضمنی الیکشن میں ایسے جواز پیش نہیں کر سکتے۔ قصہ مختصر کہا جا سکتا ہے کہ آج کا الیکشن ہار جیت کی بجائے ووٹوں کے تناسب کا الیکشن ہو گا اور تینوں بڑی پارٹیوں کو آج کے دن یہ ذہن میں رکھ کر ہی انتخابی دنگل میں اُترنا ہو گا۔