نصیر احمد ناصر کا نام اردو ادب کی تاریخ میں نظم کے اسلوب گر اور رجحان ساز شاعر کے طور پر لکھا جائے گا۔ جناب آفتاب اقبال شمیم کے بقول ’’نصیر احمد ناصر اس عصر کے ایک سچے اور بڑے شاعر ہیں۔‘‘ آپ حقیقی معنوں میں نہ صرف ایک منفرد انداز کے نظم نگار اور جدید اردو نظم کا اہم ترین حوالہ ہیں بلکہ معاصرین اور متاثرین کا ایک عہد ان کے ساتھ چلتا ہے اور ایک زمانہ ان کا معترف ہے۔ نصیر احمد ناصر نے نظم کو محبوب کی زلفوں میں قید نہیں کیا بلکہ ان کی نظمیں ہوا کی طرح زمانے کی ہر اونچ نیچ کو چھو کر گزرتی ہیں۔ ان کی نظمیں ان کی پوروں سے بہتی ہیں اور بہتی چلی جاتی ہیں۔ نصیر احمد ناصر کی نظموں میں کائنات، وقت اور تاریخ کا گہرا شعور ملتا ہے اور بنی نوع انسان کے انفرادی اور اجتماعی خوابوں کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ قدرت کے مظاہر کو انسانی جذبات و احساسات اور عصری واقعات و مسائل کا روپ دے کر بیان کرنے اور کیفیات کی تجسیم کا انداز بہت اچھوتا ہے۔ ان کی نظموں کی ہر سطر ایک مکمل استعارہ، ایک مکمل مضمون ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو پوری نظم استعاروں کا ایک گچھا بن جاتی ہے جسے کھولنے سے نت نئے معانی برآمد ہوتے ہیں۔ سادہ الفاط میں گہری سے گہری بات کہنے کا ہنر کوئی نصیر احمد ناصر سے سیکھے۔ فنی طور پر دیکھا جائے تو ہیئت، تکنیک اور موضوعات و معانی کا جو تنوع اور فراوانی نصیر احمد ناصر کی نظموں میں ہے، معاصر شاعری میں وہ کسی اور شاعر کے ہاں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ نصیر احمد ناصر کے ہاں شعری ابلاغ اور ابہام کا ایک ایسا توازن ہے جو ایک مثال ہے۔ نت نئے الفاظ و تراکیب، استعارے، علامتیں، پیکر، تشبیہیں یوں بے ساختگی سے استعمال کرتے ہیں کہ پڑھنے والا خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو کر بھی نامانوسیت کا شکار نہیں ہوتا۔ متروک سے متروک لفظ ان کی نظموں میں آ کر جدید ہو جاتا ہے۔ روزمرہ کے انگریزی الفاط بھی ان کی نظموں میں شعریت کا لبادہ پہن کر اردو میں رچ بس جاتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ قاری کو احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ کسی اور زبان کا لفظ پڑھ رہا ہے۔ نصیر احمد ناصر کو شعری زبان کا ماسٹر سمجھا جاتا ہے۔ دیگر بہت سے شعری اور شخصی اوصاف کے علاوہ نصیر احمد ناصر اردو نظم کے بہترین امیجسٹ شاعر مانے جاتے ہیں۔ اس مختصر کالم میں ان کی ذات اور شعری جہات کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ نصیر احمد ناصر کی اب تک چھ کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں پانی میں گم خواب، عرابچی سو گیا ہے، ملبے سے مِلی چیزیں، تیسرے قدم کا خمیازہ، زرد پتوں کی شال اور اے مین آوٹ سائیڈ ہسٹری شامل ہیں۔ کچھ کتابیں ابھی زیرِ طبع اور زیرِ ترتیب ہیں۔ آپ کی نظمیں انگریزی ، روسی، ہندی ، نیپالی، ہسپانوی، پرتگیزی، فارسی، ازبک اور رومانین کے علاوہ کئی علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہیں۔ اس لحاظ سے نصیر احمد ناصر بین الاقوامی اہمیت و حیثیت کے شاعر ہیں۔ جن کی شاعری کا دائرہ اثر پورے گلوب میں پھیلا ہوا ہے اور دنیا بھر میں پڑھنے والوں کا ایک اچھا خاصا حلقہ ان کی آفاقی نظموں کا گرویدہ ہے۔ نصیر احمد ناصر ادبی سماجیات، شہرت اور انعامات و اعزازات کے بجائے اپنی تخلق اور تخلیقی سچائی پر یقین رکھتے ہیں۔ مشاعروں اور تقاریب میں کم کم جاتے ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ فی زمانہ وہ اردو کے واحد شاعر ہیں جنہوں نے اپنی کسی کتاب کی نہ کبھی تقریبِ رونمائی نہ پذیرائی اور نہ کبھی اپنے لیے کوئی تقریبِ تحسین منعقد کروائی ہے تو غلط نہ ہو گا۔ اسکے باوصف نصیر احمد ناصر کا نام اردو نظم کے معیار کی ضمانت ہے۔ نصیر احمد ناصر جب لکھتے ہیں تو لکھتے چلے جاتے ہیں الفاظ ان پر اس قدر مہربان ہیں یا یوں کہہ لیجیے انکے مرید ہیں کہ ہاتھباندھے قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر لفظ کی ضد ہوتی ہے کہ وہ اسے چنیں۔ اردو زبان و ادب کے بعض متروک اور قدیم الفاظ کو جتنی محبت نصیر احمد ناصر سے ملی ہے اتنی کسی اور کے ہاں سے میسر نہیں آئی۔ ناصر صاحب کی نظم کی ایک اک سطر ایک مکمل کہانی ہوتی ہے جو نظم کے مرکزی خیال سے یوں جڑی ہوتی ہے جیسے درخت کے تنے سے شاخیں، پتے، پھول اور پھل۔ یوں انکی نظمیں کثرت میں وحدت اور وحدت میں کثرت کا نظارہ پیش کرتی ہیں اور ان کا سپیکٹرم وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ نصیر احمد ناصر کی نظم کی روانی میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی درد بہہ رہا ہوتا ہے۔ مَیں ان کو پڑھتے ہوئے کئی جگہوں پر ضبط نہیں کر پاتی۔ نصیر احمد ناصر میرے پسندیدہ ترین شاعروں میں سے ہیں اور میرے لیے شعری تحریک بھی۔ کیونکہ میرا فطری رجحان بھی نظم لکھنے کی طرف ہے۔ انہیں پڑھتے ہوئے مجھ پر نظمیں طاری ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اچھی اور بڑی شاعری وہی ہوتی ہے جو پڑھھنے والے کو اپنی گرفت، اپنے ٹرانس میں لیکر اسیرِ درد بنا دے، قاری کے دل میں سوز و گداز پیدا کر دے۔ نصیر احمد ناصر کی شاعری اسی سوز و گداز سے لبریز ہے جو اپنے قاری کو اداس تو کرتی ہے مگر مایوس نہیں کرتی۔ اور اسے زندگی سے دور نہیں بلکہ قریب کرتی ہے۔ کسی درد کو سمجھنا اور پھر بیان کرنا کمال فن ہے۔ معلوم نہیں ہمارے بہت سے شاعر اب تک صرف عورت کی زلفوں میں کیوں پھنسے ہوئے ہیں۔ نصیر احمد ناصر نے اپنی نظموں میں عورت کو محبت، تخلیق اور کائنات کا سب سے بڑا تثلیثی استعارہ بنایا ہے اور اسے وہ ارفع مقام دیا ہے جو آج تک کسی شاعر نے نہیں دیا۔
میںاگر نصیر احمد ناصر کو نہ پڑھتی تو اردو نظم کے معاصر جدید دھارے سے آشنانہ ہوتی۔ نصیر احمد ناصر کو پڑھنا جدید نظم کے ایک عہد کو پڑھنا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس عہد میں لکھ رہی ہوں جس میں نصیر احمد ناصر جیسے نظم گو موجود ہیں۔ اللہ انہیں سلامت رکھے!
عرابچی جاگ رہا ہے
Apr 23, 2016