ایوان بالا کا 247واں اجلاس سات روز جاری رہنے کے بعد جمعہ کوغیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا گیا۔اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ جمعہ 15اپریل کو جب یہ اجلاس شروع ہوا تو چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی صدر مملکت کے ترکی کے دورے پر ہونے کے باعث قائم مقام صدر کے فرائض انجام دے رہے تھے ان کی عدم موجودگی میں ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری نے ایک روز کیلئے اجلاس کی صدارت کی اس کے بعد پیر سے جمعہ تک اجلاس کی مختلف نشستوں کی صدارت میاں رضا ربانی نے خود کی۔ اور اجلاس روزانہ اپنے مقررہ وقت تین بجے اور آج جمعہ کو ٹھیک دس بجے شروع ہوا۔یہ بات بار بار لکھی جا چکی ہے کہ جب سے میاں رضا ربانی نے چیئرمین کا منصب سنبھالا ہے اس وقت سے ارکان پارلیمنٹ وقت کے پابندہوگئے ہیں۔ ارکان کی جانب سے وقت کی پابندی ایوان بالا کی توقیر میں یقینا اضافہ کا باعث بنی ہے۔یہ بات بھی باعث تقویت ہے کہ ایوان بالا میں اپوزیشن ارکان کی اکثریت ہونے کے باعث حکومت کوئی بھی بلڈوز کرانے کی پوزیشن میں نہیں اوراس بات کا بھی مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بہت سے ایسے ایشوز ایسے بھی آئے جن پر حکومتی ارکان نے رائے شماری کے دوران اپوزیشن کا ساتھ دیا۔ سیاسی مبصرین ان کی اس بات کو جماعتی نظم و ضبط کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں مگر یہ ان ارکان کی سنجیدگی بھی ہے کہ وہ ایشوز کی اہمیت کے پیش نظر اس ایشوپرحکومت یا اپوزیشن کو مد نظر نہیں رکھتے ۔ سینیٹ کے اس سیشن کی آخری نشست میں بھی ایک ایسا موقع آیا جب حکومت کے دو ارکان سینیٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) صلاح الدین ترمذی نے رائے شماری کے دوران حکومت کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ جمعہ کو حکومتی نشستوں پر بیٹھنے والے آزاد رکن محسن خان لغاری نے اسلام آبادسے2سینیٹرز کے انتخاب کا اختیار اسلام آباد کے بلدیاتی ایوان کو دینے کی قرارداد منظوری کیلئے پیش کی،قرارداد پر بحث کے دوران اپوزیشن ارکان اعظم خان سواتی،رحمان ملک،تاج حیدر اورصلاح الدین ترمذی نے قرارداد کے حق میں اظہار خیال کیاجبکہ جہانزیب جمالدینی،ساجد میراور عثمان سیف اللہ نے مخالفت میں دلائل دیئے حکومت کی طرف سے وزیرمملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن نے قرارداد کی مخالفت کی اورکہا کہ دنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ کسی بلدیاتی ادارے کو صوبائی اسمبلی کا درجہ دیدیاجائے اور اس قرارداد پر عمل کیلئے آئین میں بھی ترمیم کرنا پڑے گی۔ بحث مکمل ہونے پر چیئرمین سینیٹ نے پہلے زبانی رائے شماری کرائی کو ملے جلے ردعمل پر ایوان کی رائے واضح کرنے کیلئے قرارداد کے حق اورمخالفت میں باری باری ارکان کو کھڑا ہونے کیلئے کہا ،24ارکان قرارداد کے حق اور11مخالفت میں کھڑے ہوئے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ حکومتی رکن عائشہ رضافاروق بھی تذبذب کا شکار رہیں،پہلے قرارداد کے حق میں کھڑی ہوگئیں پھر وزیرمملکت بلیغ الرحمن کے اشارے پر بیٹھ گئیں تاہم قرارداد کی مخالفت میں بھی کھڑی نہ ہوئیں بعض دوسرے حکومتی ارکان بھی قرارداد کے حق میں ووٹ دینا چاہتے تھے مگر وزیرمملکت کے اشارے پر بازرہے۔ اس طرح حکومتی مخالفت کے باوجود آزادرکن محسن خان لغاری کی بلدیاتی ارکان کو وفاقی دارلحکومت سے2ارکان سینیٹ کے انتخاب کا اختیار دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظورکرلی۔ایوان بالا میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی ٹی 20 ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی اور بورڈ میں بدانتظامیوں کے حوالہ سے سینیٹر جاوید عباسی کی تحریک التوا بحث کے لیے منظو ر کر لی گئی۔ آئندہ اجلاس میں تحریک پر بحث ہو گی۔ ایوان نے ڈی جی جیالوجیکل سروے کوئٹہ کے خلاف سینیٹر اعظم خان کی تحریک التوا کو مسترد کردیا۔ چیئرمین رضا ربانی کا کہنا تھا کہ تحریک کو کسی فرد کیخلاف نہیں لایا جاسکتا ہے ۔ ایوان بالا نے بینکوں سے متعلق خصوصی جرائم کے ضمن میں خصوصی عدالتیں ترمیمی بل 2016 سمیت سینیٹ کے 4 بل قائمہ کمیٹیوں کی منظور کردہ شکل میں منظور کرلئے جبکہ دارالحکومت مقامی حکومت ایکٹ 2015ترمیمی بل سمیت قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے 4بل مزید غور و خوض کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوا دیئے گئے جبکہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل ترمیمی بل 2016 اپوزیشن کی شدید مخالفت کے بعد وزیر قانون زاہد حامد کی تجویز پر آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا گیا۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی ایوان میں عدم موجودگی کے دوران وزارت خزانہ سے متعلق بل وزیر قانون زاہد حامد نے جبکہ وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور وزارت داخلہ سے متعلق بل وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمان نے ایوان میں منظوری کیلئے پیش کئے، ایوان نے بینکنگ جرائم خصوصی عدالتیں ترمیمی بل 2016، ایکویٹی شرکتی فنڈ، تنسیخی بل 2016، بینکوں کو قومیانے کا ترمیمی بل 2016، نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی ترمیمی بل 2016 اتفاق رائے سے منظور کرلئے جبکہ قومی اسمبلی سے منظور کئے گئے اسلام آباد مقامی حکومت ترمیمی بل 2016، مالیاتی ادارے ریکوری آف فنانسز ترمیمی بل 2016ڈیپازٹ پروٹیکشن ترمیمی بل 2016 اور مالیاتی ادارے محفوظ ترسیلات بل 2016 ایوان میں پیش کئے گئے جنہیں چیئرمین نے مزیدغوروخوض کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کر دیا، مذکورہ بل قائمہ کمیٹیوں سے منظوری کے بعد دوبارہ منظوری کیلئے ایوان میں پیش کئے جا سکیں گے۔وقفہ سوالات کے دوران ایوان بالا کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ حکومت نے غریب لوگوں کیلئے ملک بھر میں ’’اپنا گھر‘ اسکیم کا منصوبہ بنایا ہے ،سکیم کے تحت شہروں میں فلیٹس اور دیہات میں 5مرلے کے گھر تعمیر کئے جائیں گے، وزارت پانی و بجلی نے نیب کے ذر یعے ابھی تک 28.44ملین روپے ریکور یاں ہو گئی ہیں، فروری 2016 تک وفاقی حکومت سمیت چاروں صوبوں ،اے جے کے اور کے الیکٹرک کے ذمے وزارت پانی و بجلی کے 205.761ارب روپے کے واجبات ہیں، گزشتہ دس سالوں کے دوران نیب نے 71.220ارب روپے ریکور کئے، گزشتہ پانچ سالوں کے دوران وفاقی سیکرٹریزکی جانب سے اپنے محکموں میں کرپشن کے حوالے سے 26کیسز نیب کو بھیجے گئے، جن میں سے 8کی تحقیقات جاری ہیں۔ایوان بالا میں حکومت کی طرف سے فاٹا اساتذہ کے مطالبات تسلیم کرنے کا ٹائم فریم نہ دینے پر فاٹا ارکان نے ایوان سے واک آئو ٹ کیا۔حکومتی رکن مولانا عطاء الرحمن نے بھی واک آئوٹ میں اپوزیشن کا ساتھ دیا‘ فاٹا رکن اورنگزیب خان نے اعلان کیا کہ جب تک حکومت فاٹا ٹیچرز کے مطالبات پورے کرنے کے لئے نوٹیفکیشن جاری نہیں کرتی وہ تب تک ایوان میں واپس نہیں آئیں گے۔تاہم علامتی واک آئوٹ کے بعد تھوڑی دیر بعد ایوان میں واپس آگئے۔ چیئرمین سینٹ نے وزیر برائے سیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کو مخاطب کرکے کہا کہ گزشتہ روز فاٹا ارکان نے فاٹا ٹیچرز کے مطالبات کا معاملہ اٹھایا تھا۔ اب اس بارے ارکان کے تحفظات دور کریں۔ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ ہم نے اصولی طور پر فاٹا ٹیچرز کے مطالبات تسلیم کرلئے ہیں ۔اس پر قانو نی پیش رفت ہورہی ہے ۔چند روز میں وزیراعظم کے سمری منظور کرتے ہی اس کا اعلان کردیا جائے گا۔
ایم کیو ایم کے سینیٹر شیخ عتیق کے سینیٹ میں توجہ دلائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف زاہد حامد کا کہنا تھا کہ نان پیڈ کسٹم گاڑیاں پاک افغان بارڈر سے سمگل کرکے ملک کے اندر لائی جاتی ہیں گاڑیوں کی سمگلنگ روکنے کیلئے بارڈرز پر کسٹم حکام اور متعلقہ اداروں کی پٹرولنگ بڑھائی جائیگی‘ 2013 کی کسٹم ایمنسٹی سکیم میں ایک ماہ کے اندر 51 ہزار 201 نان کسٹم پیڈ گاڑیاں رجسٹرد ہوئیں جبکہ 16 ارب 19کروڑ روپے کسٹم کی مد میں قومی خزانے میں جمع ہوئے‘ تین سال میں تین ہزار سے زائد نان کسٹم پیڈ گاڑیاں پکڑی گئیں۔ یہ ایک سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اور حکومت اس سے نمٹنے کے لئے اقدامات کرتی رہتی ہے ملک میں بڑی تعداد میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں ۔ جمعہ کوپارلیمنٹ ہائوس میںپنجاب کی صوبائی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن شعیب صدیقی کی جانب سے جنرل راحیل شریف کے آرمی کے ادارے سے احتساب کے آغاز پر خراج تحسین کی جمع کرائی گئی قرارداد بھی موضوع بحث رہی۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ یہ ایوان آٓرمی چیف کے اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور وفاقی اور صوبائی ادارے بھی اس احسن اقدام کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اداروں میں احتسابی عمل کا آغاز کریں گے اور ملک و قوم کو نقصان پہنچانے والوں کو انجام تک پہنچائیں گے۔ بعض سینیٹرز کی رائے تھی کہ ایسی ہی ایک قرارداد سینیٹ میں بھی جمع کرائی جائے۔ بلا امتیاز احتساب ہی سے ملک و قوم کی قسمت سنور سکتی ہے۔ آرمی چیف کے اس اقدام کی بدولت ملک و قوم کی دولت لوٹنے والوں کی یقینا حوصلہ شکنی ہوئی ہو گی۔