عمران خان۔۔”ہنوز دلی دوراست“

آج کل پانامہ کیس کا فیصلہ ہاٹ ایشو ہے دو ماہ سے پوری قوم اس تاریخی فیصلے کی منتظر تھی اور حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف‘ کے کارکنان اور ہمدرد آمنے سامنے تھے ۔ بعض کا خیال تھا کہ حکمراں ناہل ہو جائیں گے اور حکومت جاتی رہے گی جبکہ بعض حکومت کی حمایت میں تھے اور ان کا خیال تھا کہ حکومت کو کچھ بھی نہیں ہو گا اور حکمراں اپنی آئینی مدت پوری کریںگے۔چنانچہ فیصلے کی رو سے حکومت کو مہلت مل گئی ۔ عجیب اتفاق ہے کہ پانامہ کیس آنے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنما آپس میں گلے مل رہے ہیں مٹھائیاں بانٹ کر ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے کارکنان بھی فتح کا نشان بنارہے ہیں ، مٹھائیاں بانٹ رہے ڈانس بھنگڑے ڈال کر جشن منا رہے ہیں‘ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور ان کے کارکنان بھی فیصلے کے بعد خوش ہیں‘ وکٹری نشان بنارہے ہیں‘ سمجھ نہیں آرہا کہ پانامہ کیس کے فیصلے سے کون جیتا کون ہارا؟۔ عوام تذبذت کا شکار ہیں اور اگر دیکھا جائے تو حکمران جماعت اپنے پاﺅں پر کھڑی ہے اور کھڑی رہے گی باقی سب کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف بغلیں بجاتے نظر آرہے ہیں۔ البتہ پاکستان پیپلزپارٹی پانامہ کیس میں زیادہ جذباتی نہیں ہوئی اور ’ویٹ اینڈسی‘ کی پالیسی پر اکتفا کیا۔ تاہم پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین آصف زرداری نے نااہلی کے نوٹ لکھنے والے ججوں کو خراج تحسین پیش کیا۔
پانامہ لیکس کیس آنے پر پاکستان تحریک انصاف عوام کو سڑکوں پر لائی اور حکمرانوں سے چھٹکارے کے لئے احتجاج کا رخ اختیار کیا ۔ بعد ازاں عمران خان نے عوام کو انصاف دلوانے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پانامہ کیس کا فیصلہ عدالت عظمیٰ پر چھوڑ دیا اور کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کو ہر صورت تسلیم کریں گے ۔ فیصلہ آنے سے دو روز قبل عمران خان نے یوٹرن لیا شاید انہیں اندازہ ہوگیا کہ ”ہنوز دلی دوراست“ کے مصداق ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کی عوام کی نظر میں سبکی ہوگی اور حکومت کیخلاف ان کا یہ نشانہ خطا ہوجائے گا چنانچہ عمران خان نے یوم تشکر منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ”پانامہ کیس کا فیصلہ کچھ بھی ہو ہم عوام میں جائیں گے“ اور اسلام آباد کے پریڈ گراﺅنڈ میں بڑے عوامی جلسے کا اعلان کردیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوام میں ہی جانا تھا تو پھر عدالت کیوں گئے۔ عوام کے احساسات‘ جذبات‘ قومی وسائل اور قوم کے قیمتی وقت سے کھیلنا ہی وطہرہ بنالیا گیا ہے۔یقیناً عوام کو ایک بار پھر سڑکوں پر لانا زیادتی ہے ۔ یہ احتجاج ملک و قوم سے محبت ہے یا کچھ اور....!
عوام کو سڑکوں پر لانے اور احتجاج کے حوالے سے ایک واقعہ یاد آیا جن دنوں میٹرک کے طالب علم تھے ان دنوں کا واقعہ ہے کہ کلاس میں راقم الحروف نے ریاضی کے استاد چوہدری نذیر احمد سے استفسار کیا کہ جناب ! یہ الجبرا ہمارے پلے نہیں پڑتا اس کی کچھ سمجھ نہیں آتی آخر اس کا فائدہ کیا ہے۔ یہ کہاں مستعمل ہوگا انہوں نے کہا کہ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے ایک کسان کو الہ دین کا چراغ ملا ۔ کسان نے چراغ توڑا تو ایک جن حاضر ہوگیا اور بولا،” کیا حکم ہے میرے آقا“۔ اس نے کہا کہ ان کھیتوں میں ہل چلادو‘ فلاں کام کر دو وغیرہ ۔ جن خلاف توقع اناً فاناً کام کردیتا اور پھر کسان کے روبرو کھڑا ہوجاتا ہے اور کہتا کیا حکم ہے میرے آقا“۔ کسان جن سے عاجز آگیا اور اسے ایک ترکیب سوجھی۔ اس نے ایک لمبا بانس لیا اور کھیت میں گاڑ دیا اور جن سے کہا کہ آپ اس بانس پر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر چکر لگاتے رہو۔ ہمارے استاد نے بات ختم کرتے ہوئے کہا ،” برخوردار ! اس الجبرے کا کوئی فائدہ نہیں بس آپ لوگوں کو مصروف کرنے کا بہانہ ہے “۔استاد نے کہانی سنا کر اپنی جان چھڑائی عمران خان کی شاید فیصلے کے بعد جان نہیں چھوٹی ۔جماعت اسلامی کے بھی کارکنان اور عوام کے سامنے سبکی ہوئی ہے چنانچہ انہوں نے عوام کو مصروف کرنے کے لئے اور عوام کے ممکنہ ردعمل سے بچنے کے لئے دوبارہ جلسے جلسوسوں اور احتجاج کا راستہ اختیار کر نے کا اعلان کیا ہے جو کہ کسی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔ در حقیقت من وعن عدالت عظمی کے فیصلہ قبول کیا جا نا اور جے ٹی آئی کی رپورٹ کا انتظار کیا جانا چاہیئے۔
بلاشبہ پانامہ کیس کا فیصلہ تاریخی ہے اور 20 اپریل 2017ءکو ہونے والا فیصلہ کی اپنی اہمیت ہے۔ سپریم کورٹ نے پاناما کیس کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دے دیا۔ سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ایک میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پاناما کیس کا 540 صفحات پر مشتمل پہلے سے محفوظ فیصلہ پڑھ کر سنا یا ۔ تحریر کیا ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سنانے سے پہلے کہا کہ فیصلہ 547 صفحات پر مشتمل ہے جس میں سب نے اپنی رائے دی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں ،سب نے اپنی رائے دی ہے،فیصلہ تین اور دو کا ہے، رقم کیسے قطر گئی تحقیقات کی ضرورت ہے،چیئرمین نیب غیررضامند پائے گئے،چیئرمین اپنا کام کرنے میں ناکام رہے،اس لیے جے آئی ٹی بنائی جائے، فیصلے میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اختلافی نوٹ لکھا کہ وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جائے،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا تین ججز کا فیصلہ ہے کہ معاملے کی تحقیقات ہوں۔ اس موقع پر کمرہ عدالت سیاسی رہنماو¿ں، وکلا رہنما اور سیاستدانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا جن میں وفاقی وزرا سمیت اہم ترین حکومتی رہنما، عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے سرکردہ لیڈر، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید بھی شامل تھے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے روزانہ کی بنیاد پر سماعت کے بعد پانامہ کیس کا فیصلہ 23 فروری کو محفوظ کیا تھا۔ 57 روز فیصلہ محفوظ رکھے جانے کے بعد سپریم کورٹ کی عدالت نمبر 1 میں فیصلہ سنایا گیا۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد اور جماعت اسلامی کے سراج الحق نے پاناما لیکس سے متعلق درخواستیں دائر کی تھیں، درخواست گزاروں نے عدالت عظمٰی سے درخواست کی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف، کیپٹن صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نااہل قرار دیا جائے۔ سپریم کورٹ نے مجموعی طور پر دو مرحلوں میں 36سماعتوں میں کیس کو سنا۔ یوں گزشتہ کئی دنوں سے پورے ملک میں بھونچال تھم گیا اور پانامہ کیس کے فیصلے کے بعد حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کو نئی حکمت عملی طے کرنا کے لئے ایک بینچ پر آنا پڑے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...