پانامہ کیس میں جے آئی ٹی کی تشکیل ایک ایسا عمل ہے اگر اس پر حزب اختلاف میں اتفاق رائے ہو جائے تو بیل منڈھے چڑھ جائے گی ورنہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بیسیوں سال نہیں بلکہ صدیوںیاد رکھا جائے گا کہ جہاں ہمارے سیاستدان اور دانشور ملک کو استحکام دینے میں نا کام ہوئے وہاں عدلیہ بھی کوئی راستہ نہ نکال سکی۔یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہے کہ ہمارے ہاں"Visionary Leadership" کی کمی ہے۔ جب معاشرہ اس حال کو پہنچ جائے تو قحط الرجال کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔
قحط میںموت ارزاں اور قحط الرجال میں زندگی، یہ ہیں وہ الفاظ جو مرحوم مختار مسعود نے اپنی نامور تصنیف" آواز دوست "میں لکھے تھے۔ مختار مسعود صاحب نے تو 1970 کی دہائی میں قیام پاکستان سے لے کر اس وقت تک کے ایام کے حوالے سے قحط الرجال کا ذکر کیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان کو مسلسل قحط الرجال کا سامنا ہے۔ اس و قت بھی ملک کو ایسی قیادت میسر نہیں جو ہماری ناﺅ کو کنارے لگا سکے۔ 1970کی دہائی تک ایک بڑا نام ذوالفقار علی بھٹو کا تھا، لیکن انہی کے ایام سیاست میں ملک دو لخت ہوا ۔ یحییٰ خان، ضیاءالحق اور مشرف نے جس قسم کی قیادت فراہم کی اس نے ہماری معاشرت کو سیاسی ، سماجی اور فکری اعتبار سے منتشر کر دیا۔ آصف علی زرداری کے بارے میں مجموعی رائے کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔نواز شریف کے بارے میں جو بھی گمان پایا جاتا تھا وہ" پانامہ کیس" نے طشت ازبام کر دیا ، عمران خان چلتی گاڑی کو ڈی ریل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اور جماعت اسلامی کی قیادت بھی مولانا مودودی مرحوم اور مفتی محمود مرحوم کی نسبت پچھلی صفوں کی مقتدی ہے ۔ فی الحقیقت قومی قیادت کے اعتبار سے اس وقت بھی ہم قحط الرجال کا شکار ہیں۔ کہنے کو تو ہم 20کروڑ کے لگ بھگ ہیںلیکن کسی بھی شعبے میں مثالی قیادت موجود نہیں۔افتخار محمد چوہدری ایک عوامی تحریک کا ثمر انفرادی اعتبارپر تو ضرور حاصل کر گئے لیکن عدلیہ اور انصاف کے اصلاحی عمل میں کچھ نہ کر سکے اور تاریخی اعتبار سے ایک متنازعہ شخصیت بن گئے۔علم و ادب اور فکری اعتبار سے بھی اس وقت کوئی بڑا آدمی سامنے نہیں کہ جس کی پیروی کی جا سکے۔بچے کچھے چند لوگ جن پر تکیہ کیا جا سکتا تھا وہ سیاسی مصلحتوں اور چھوٹے چھوٹے سرکاری عہدوں کو اپنی منزل قرار دے گئے۔اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ قحط ہو تو موت ارزاں ہوجاتی ہے اور قحط الرجال ہو تو زندگی یعنی آدمی تو بہت ہیں، ان کی حیثیت چلتے پھرتے زی روح کی تو ہے لیکن انسان ان میںکم ہی ہیں۔ اسی لیے تو علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ ...."آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا"۔
پاکستانی تاریخ میں قحط الرجال کی مثالیں اگر دیکھنی ہوں تو مختار مسعود مرحوم کہ جن کا انتقال گزشتہ ہفتے ہوا ہے۔ان کی کتاب آواز دوست کا مطالعہ ضرور کرنا چاہئیے۔ انہوں نے اس کتاب کو دو مضامین میںتقسیم کیا ہے ایک "مینار پاکستان" اور دوسرا" قحط الرجال"۔میں برادرم شاکر حسین شاکر سے اتفاق کرتا ہوں کہ "مختار مسعود کی کتاب سینکڑوں مداحوں کو اشعار کی طرح زبانی یادتھی۔مختار مسعود نے اسی کتاب میں مشہور برطانوی مورخArnold Joseph Toynbee کا ذکر کیا ہے ۔ آرنلڈٹائن بی نے A study of Histroy "تاریخ کی تاریخ ©©"لکھ کر ابدی شہرت حاصل کی ہے۔یہ کتاب بارہ جلدوں پر مشتمل ہے۔ جن ایام میں مختار مسعود ملتا ن کے ڈپٹی کمشنرتھے ان دنوں میں آرنلڈ اسی کتاب کے سلسلے میں تحقیق کے لیے دنیا کے قدیم ترین شہر ملتان میں تاریخی آثار ڈھونڈنے آئے۔وہ لکھتے ہیں کہ میں نے ان کو بریفینگ دینے کے لیے سرکٹ ہاﺅس ملتان میں اہتمام کیا لیکن جب انہیں ائر پورٹ سے لے کر حرم گیٹ اور بوہڑ گیٹ کا علاقہ دکھانے لے گیا تو ان کی گفتگو سے احساس ہوا کہ ان کو بریفینگ دینے کی بجائے مجھے ان سے ملتان کے بارے میں علم حاصل کرنا چاہئے۔مختار مسعود پاکستان سے محبت کرنے والے ایک سچے اور کھرے انسان تھے۔وہ مصنف، محقق اور معلم ہونے کے ساتھ ساتھ فکر ی رہنما بھی تھے۔ صد افسوس کے اس وقت ملک میں بے داغ دانشور اور فکری رہنماﺅں کا قحط ہی نہیں بلکہ روحانی اعتبار سے بھی رہنماﺅں کی کمی ہے۔پیرفقیر تو بہت ہیں لیکن "اقبال" رکھنے والے نا پید ہیں۔خشک مغز، خشک پوست....از کجامی آید آواز دوست
آواز دوست کے خالق کوجب دارفانی کا " سفر نصیب "ہوا تووہ "لوح ایام" چھوڑ کر لوح محفوظ کی بستی میں چلے گئے اور ہم بقول حفیظ جالندھری اسی بستی میں ہیںجہاں....
چلتے پھرتے ہوئے مرُدوں سے ملاقاتیں ہیں
زندگی کشف و کرامات نظر آتی ہے©