کیا فوجی آپریشن ردّ الفساد کا میاب ہے ؟

Apr 23, 2017

سلطان محمود حالی

پاک فوج نے22 فروری2017کو ملٹری آپریشن ردّ الفساد کا آغاز کیا۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ کےمطابق ردّالفساد جسکا مطلب ”اختلاف کا خاتمہ “ ہے کا مقصد دوسرے فوجی آپریشن سے حاصل شدہ دہشت گردی کیخلاف کامیابیوں کو مربوط کرنا ہے تاکہ پاکستان کی سرحدوں کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جائے۔ آپریشن ردّ الفساد میں پاکستان کی برّی افواج کے علاوہ بحریہ، فضائیہ، سول آرمڈ فورسز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی فعال طور پر شرکت کررہے ہیں تاکہ ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کیا جاسکے۔ اس اہم فوجی آپریشن کوشروع ہوئے تین ماہ گزر چکے ہیں لہذا یہ لازم ہے کہ تجزیہ کیا جائے کہ ردّ الفساد کا میابی کی راہ پہ گامزن ہے یا نہیں؟ پاک فوج کےمطابق یہ آپریشن کا میابی سے جاری ہے اور خاطر خواہ نتائج حاصل ہو رہے ہیں لیکن غیر جانبدار اور آزاد ذرایع سے اس دعوے کی تصدیق لازمی ہے۔ دو حالیہ واقعات اس تازہ ترین آپریشن کی کامیابی کی جانب اشارہ دیتے ہیں۔ سب سے پہلے تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) اور جماعت الاحرار کے ترجمان احسان اللہ احسان کا ہتھیار ڈال کر خود کو سکےورٹی ایجنسیوں کے روبر و گرفتاری کےلئے پیش کرتا ہے۔ واضح رہے کہ احسان اللہ احسان بیت اللہ محسود کے زمانے سے2008 میں خطر ناک جنگجو کے طورپر منظر عام پہ ابھرا2014 میں ٹی ٹی پی کا ایک نیا دھڑا جماعت الاحرار قائم ہوا اور احسان اللہ احسان اس کا ترجمان بنا ،اس کا دعوی ٰ تھاکہ ٹی ٹی پی کے70 سے 180ارکان اسکے ساتھ جماعت الاحرار میں شامل ہوئے۔ اسی برس لاہور میں مال روڈ پہ خطر ناک حملے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی تھی۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے احسان اللہ احسان کے ہتھیار ڈالنے کے عمل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی ریاست، عوام اور قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے تعاون سے ملک کی سلامتی کی بہتری کی صورتحال میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ مسلح افواج کی قربانیوں اور کاوشوں سے سرحد پار سے پاکستان کی سرزمین پر حملوں کی منصوبہ بندی میں کمی آئی ہے اور ریاست دوبارہ اپنی رٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ اگر حکومت وقت اس امر کا ارادہ کرلے کہ کوئی عنصر بھی ریاست کو چلینج نہیں کر سکتا تو ملک سے خطر ناک عناصر کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔دیگر قابل تحسین کاروائی لاہور میں ایسٹر کے موقع پہ لاہور میں ایک گرجاپہ خطر ناک حملے سے قبل ہی دہشتگرد گروہ کی گرفتاری ہے۔ اگر یہ حملہ کامیاب ہوجاتا تو سینکڑوں معصوم متقی عیسائیوں کو عبادت کے دوران شہید کردیا جاتا۔ ملٹری آپریشن ردّ الفساد کے تحت ملک بھر میں پندرہ بڑے آپریشن ہوچکے ہیں : پنجاب میں دو، سندھ میں ایک، بلوچستان میں چار جبکہ فاٹا/خیبر پختونخواہ میں آٹھ ۔ان تمام آپریشنز میں اسلحہ کی بھاری مقدار بر آمد کی گئی جبکہ متعدد دہشتگرد ہلاک یا گرفتار کئے گئے۔ 14اپریل 2017 کو پاکستان رینجرز (پنجاب) کی ایک نفری نے حساس اداروں کےساتھ مشترکہ آپریشن میں بستی دادوانی جو ڈیرہ غازی خان سے30کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع ہے میں تحریک طالبان پاکستان کے دس دہشتگرد ہلاک کئے ۔شدید فائرنگ کے تبادلے میں چار رینجرز کے اہلکار شہید ہوئے جبکہ دو زخمی ہوئے۔صوبہ بلوچستان میں9اپریل 2017 کو سکیورٹی فورسز نے کوئٹہ میں ایک بڑے دہشتگرد حملے کو ناکام بنادیا۔ ایف سی کے اہل کاروں نے پاک ۔افغان سرحد کے قریب واقع شہر چمن میں دہشتگردوں کے قبضے سے120 کلو گرام وزنی دھماکہ خیزمادے سے بھرے ٹرک کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ یہ دھماکہ خیزمادہ کوئٹہ میں ایک بڑے حملے میں استعمال کیا جانےوالا تھا۔ دو دہشتگردوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ دوران تفتیش پتہ چلا کہ ٹرک پہ لدے خود ساختہ بم افغانستان کے صوبہ قندھار میں تیار کئے گئے اور انہیں کوئٹہ میں استعمال ہونا تھا۔ 15اپریل 2017 کو لورالائی کے مقام پہ بلوچستان ایف سی نے حساس اداروں کی نشاندہی پہ22 خو دساختہ بم اپنی تحویل میں لیکرتخریب کاری کی واردات کو ناکام بنادیا۔16اپریل 2017 کو خیبرپختونخواہ کے صوبے میں سکیورٹی فورسز نے اسلحہ کے بڑے ذخیرے پہ قبضہ کرلیا۔اس ذخیزے میںراکٹ، دیسی ساختہ بم، مارٹر ، دستی بم اور مواصلاتی آلات شامل تھے۔ یہ تمام ذخیرہ اور کزئی ایجنسی کے علاقے کلایہ سے برآمد کیا گیا جہاں تحریک طالبان کا اہم اڈہ تھا جو زیرزمین سرنگوں میں قائم تھا۔ سندھ کے صوبے میں کیماڑی /مواتھ گوچھ علاقے میں سندھ رینجرز نے ایک بڑی دہشت گرد سر گرمی کو ناکام بنادیا۔ پانچ دہشت گرد جنکا تعلق راءاور داعش سے بتایا جاتا ہے، کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان دہشتگردوں کے نام طاہر زمان، محمد نواز، بلال احمد، محمد فرحان صدیق اوردر محمد ہے جو کراچی میں ایک بڑے دہشتگرد حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔اس دورانئے میں فوجی عدالتوں نے 274 دہشتگرد ی میںملوث ملزموں کیخلاف مقدمے چلائے۔ ان میں161 کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ 24کوتختہ دار پہ لٹکایا گیا۔ پاک فوج کے سپہ سالار جنرل باجوہ نے مزید 30سخت گیر دہشتگردوں کےخلاف فوجی عدالتوں کی جانب سے تجویزشدہ سزائے موت کی توثیق کردی۔ آپریشن ردّ الفساد کے دوران فوجی عدالتوں کی کاروائی میں تیزی آئی جسکے باعث آرمی پبلک اسکول پشاور کے حملے ، ایف سی اہلکاروں کا اغواءاور قتل ،سیدو شریف ائر پورٹ پہ حملہ اور پاک فوج کی تنصیبات پہ حملوں میں ملوث مجرم شامل ہیں جنہیں کیفر کردار تک پہنچایا گیا۔پاک فوج نے سرحد پار دہشتگردی کی وارداتوں پہ قابو پانے کی غرض سے پاک افغان سرحد کا سروے مکمل کیا۔ ایک جانب پاک، فوج ملٹری آپریشن ردّ الفساد میں مشغول ہے تو دوسری طرف قومی مردم شماری میں بھی حصہ لے رہی ہے۔ اپنی پیشہ ورانہ مشغولیات کے باوجود پاک فوج مختلف ترقیاتی منصوبوں میں بھی شامل ہے۔افواج پاکستان کے ترقیاتی منصوبوں میں تعلیم اور صحت سے متعلق منصوبے بھی شامل ہیں۔ فاٹا کے علاقے میں 67 نئے تعلیمی ادارے قائم کئے گئے 4 کیڈٹ کالج اور 63 پرائمری اسکول شامل ہیں جبکہ 147 تعلیمی ادارے جنہیں دہشتگردوں نے تباہ کردیا تھا دوبارہ تعمیر کئے گئے۔ قارئین خود فیصلہ کریں کہ فوجی آپریشن ردّ الفساد کس حد تک کا میاب ہے؟ لیکن ہمارے پیارے وطن سے دہشتگردی کے مکمل خاتمہ کی خاطر ہر شہری کوآپریشن ردّ الفساد میں دلجمعی سے حصہ لینا پڑیگا۔

مزیدخبریں