آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور وزرا کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافہ
یہ اضافہ تو حق بنتا ہے آزاد کشمیر کے وزراءاور وزیراعظم کا کیونکہ ان کی محنت شاقہ اور طویل جدوجہدکی بدولت دیکھ لیں آج آزاد کشمیر رشک ارم بنا ہوا ہے۔ اس کے شہر پیرس اور لندن کو جبکہ دیہات یورپی کاﺅنٹیوں کو شرماتے ہیں۔ ہر طرف خوشحالی امن اور روزگار کا دور دورہ ہے۔ راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ جبھی تو ان بے فکرے وزیروں اور وزیراعظم کی تنخواہوں میں 10 یا 15 نہیں پورے 200 فیصد اضافے کا فیصلہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں ان وزیروں کے لئے لش پش قیمتی گاڑیوں کی ایک نئی کھیپ بھی منگوائی جا رہی ہے۔ آخر انہوں نے اس اڑھائی ضلع کی ریاست میں جہاں ایک بھی زمینی سڑک ہموار نہیں یہ گاڑیاں چلا کر کیا کرنا ہے۔ دراصل یہ اور ان کے بچے انہی گاڑیوں میں اسلام آباد اور راولپنڈی کی سیر کرتے ہیں وہاں بنائے گئے اپنے بنگلوں میں رہتے ہیں۔ پٹرول ڈرائیور کا خرچہ آزاد کشمیر گورنمنٹ اٹھاتی ہے جو قدم قدم پہ ایک ایک روپے کے لئے حکومت پاکستان کی محتاج ہے۔ مزے یہ شہزادے اور شہزادیاں اٹھاتی ہیں۔ جب پہلے اتنی قیمتی گاڑیاں موجود ہیں تو نئی کیوں خریدیں۔ جو حکومت خود اپنے اخراجات کے لئے دوسروں کی محتاج ہو ان کے رحم و کرم پر پلتی ہو اس کو یہ عیاشیاں کہاں زیب دیتی ہیں۔ اگر یہ اتنے ہی شاہ خرچ ہیں تو اپنے خرچہ پہ گاڑیاں تو کیا جہاز منگوائیں مگر حکومت آزاد کشمیر کو مزید مقروض تو نہ کریں........
٭٭٭٭٭
کوئی شبہ نہیں شام کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں: امریکی وزیر دفاع
یہ یقین تو امریکہ کو عراق اور لیبیا کے خلاف بھی تھا کہ وہاں خطرناک ایٹمی اسلحہ سے لےکر ممنوع کیمیائی ہتھیاروں تک کے ذخیرے ہیں۔ مگر دونوں ممالک کو کھنڈرات میں بدلنے کے بعد بھی وہاں سے وہ مرا ہوا چوہا برآمد نہیں کر سکے جو عام طور پر پہاڑ کھودنے کے بعد ملتا ہے۔ لگتا ہے ابھی تک امریکہ کا دل مشرق وسطیٰ سے بھرا نہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ویت نام کی تاریخ دہرانے والا ہوچی منہ جیسا کوئی محب وطن حکمران موجود نہیں۔ ورنہ امریکہ کی کیا مجال کہ وہ مشرق وسطیٰ کو اس طرح تہس نہس کرنے کا سوچ بھی سکتا۔ افغانوں کی مثال سامنے ہے۔ افغانستان بلاشبہ امریکہ کیلئے دوسرا ویت نام بنا ہوا ہے۔ اسکی مثال سانپ کے منہ میں چھچھوندر کی سی ہو چکی ہے۔ ہمارے عرب حکمرانوں کو امریکہ نے ایران کے خوف سے ڈرایا ہوا ہے۔ امریکی ترجمان کے مطابق ایران کی مشرق وسطیٰ میں مداخلت فلسطین سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہے۔ یہ تو اپنے بچے کا تحفظ کرنے اور دوسرے کے بچے کو ڈرانے والی بات لگتی ہے۔ ورنہ کہاں اسرائیل کا دائمی مرض کہاں عام سر درد کی شکایت۔ بہتر ہوتا اگر عرب اور ایران مل کر آپس کے مسائل حل کرتے تو کسی اور کو یہ کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی....
احتساب عدالت کی مشتاق رئیسانی کی جائیداد حکومت بلوچستان کے نام منتقل کرنے کی ہدایت
پہلے یہ اتنی ڈھیر ساری دولت سمیٹنے والا تنہا ایک شخص تھا۔ اب اس دولت پر پوری حکومت ہاتھ صاف کرے گی۔ ہر وزیر مشیر بیوروکریٹ حصہ بقدر جثہ سمیٹے گا۔ حکومت بلوچستان کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پورا صوبہ لاوارث بچے کی طرح سہما کھڑا ہے۔ کیا حکومت کیا اپوزیشن سارے نواب سردار، ملا، میر اور خان مل کر اس کا گھر لوٹ رہے ہیں۔ جرائم پیشہ افراد کو اعلیٰ ملازمتیں دے کر دور دراز علاقوں میں تعینات کیا جاتا ہے جو صرف تنخواہ لیتے ہیں اور اپنے مربی سرداروں کے لئے لوٹ مار اور قبضے کرتے پھرتے ہیں۔ اب یہ ضبط شدہ مال بھی اسی خزانے میں جائے گا جہاں پہلے ہی دودھ کی رکھوالی پر بلیاں بٹھائی گئی ہیں۔ بلوچستان کے لوگ کرپشن بدعنوانی اور خلاف میرٹ تقرریوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ یہ فیصلہ سن کر تو ان کا سینہ پیٹنے کا جی چاہتا ہو گا۔ اس سے تو بہتر تھا کہ یہ پیسہ مفلسوں، بیواﺅں، یتیموں کی پرورش اور علاج پر صرف کیا جاتا۔ ان کے لئے قیام گاہیں، ہسپتال اور فنی مراکز بنائے جاتے۔ مال حرام ہی سہی مگر اس کا استعمال تو حلال ہو سکتا ہے۔ سرکاری لٹے پٹے خزانہ سے پہلے کون سا ایسا کام ہوا جسے حکومت بلوچستان اچھا کہہ کر ‘مثالی کہہ کر پیش کر سکے۔ اب اگر یہ کر دیتی تو لوگوں کو کچھ تو تسلی ہوتی۔
٭٭٭٭٭
اترپردیش میں کشمیر ی طلبہ کو 30اپریل تک نکل جانے کے بینرز لگ گئے
کشمیری طلبہ کو تعلیمی اداروں سے نکالنے کی مہم عرصہ دراز سے بھارت میں جاری ہے۔ آئے روز کہیں نہ کہیں سے کشمیری طلبہ کے ساتھ مار پیٹ اور ان کے قتل تک کے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اب اتر پردیش میں باقاعدہ پوسٹر لگ چکے ہیں کہ کشمیری طلبہ 30 اپریل تک اترپردیش سے نکل جائیں۔ یہ تو کھلم کھلا کشمیریوں کو بھارت سے نکالنے کی مہم ہے۔ کشمیری تو عرصہ دراز سے بھارت سے نکلنا چاہتے ہیں مگر یہ بھارت ہی کمبل بن کر چپکا ہوا ہے۔ اس کے جواب میں اب کشمیری کٹھ پتلی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ بھی بھارتی حکومت کو الٹی میٹم دے کہ وہ بھی جلد از جلد اپنا بوریا بستر سمیٹ کر کشمیر چھوڑ کر چلی جائے۔ عوام بھی یہی چاہتے ہیں۔ مگر ایسا عزم بالجزم کٹھ پتلی بھارت نواز سیاستدانوں میں کہاں پیدا ہو سکتا ہے۔
بھارتی وزیر راج ناتھ کو کشمیر میں مرنے والے کشمیریوں کا تو دکھ نہیں ہوتا۔ البتہ ان کی مکار سیاست تو دیکھیں کیسے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ بھارت میں کوئی کشمیریوں کو تنگ نہ کرے یہ ہمارے شہری ہیں۔ کاش کبھی انہوں نے بھارتی مسلمانوں کے بارے میں بھی ایسا کہا ہوتا۔ چلیں شکر ہے ایک بات تو واضح ہو گئی کہ کوئی بھی بھارتی کشمیریوں کو بھارتی تسلیم نہیں کرتا اور کشمیری بھی 70 سال سے یہی کہتے آئے ہیں کہ وہ بھارتی نہیں ہیں....
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اتوار ‘25 رجب المرجب‘ 1438 ھ‘ 23 اپریل 2017ئ
Apr 23, 2017