20اپریل کو پانامہ کیس کے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید نے اطالوی نژاد امریکی مصنف ماریوپوزو کے مشہور ناول”دی گاڈ فادر“ کے اس تاریخی جملے آغاز کیا۔
”دولت کے ہر غیر معمولی ذخیرہ کے پیچھے ہمیشہ ایک جرم موجود ہوتا ہے“ اگرچہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی ججمنٹ میں وزیراعظم اور انکے خاندان کے لندن فلیٹس کے حصول سے متعلق موقف مسترد کرتے ہوئے نوازشریف کو بطور ممبر قومی اسمبلی نااہل قرار دیا، ان کے موقف سے جسٹس گلزار احمد نے بھی اتفاق کیا کہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے مگر بنچ کے دیگر ججز نے وزیراعظم نوازشریف کی نااہلی سے اتفاق نہیں کیا کیونکہ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ہے لہٰذا تفتیش کے بغیر کسی کو بھی قانونی شہادت کے تحت سزا نہیں دی جاسکتی ہے چنانچہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو اس معمہ کو حل کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ(i) گلف اسٹیل مل کا قیام کیسے عمل میں آیا(ii)اس کے فروخت کی کیا وجہ تھی (iii)اس کی فروخت سے حاصل کی گئی رقم کہاں استعمال ہوئی (iv)اسکے واجبات کدھر گئے اورکہاں استعمال ہوئے (v)گلف مل کی فروخت سے حاصل شدہ 12ملین درہم جدہ اور برطانیہ کیسے پہنچے (vi)قطری شہزادے کے خط کی اصل حقیقت کیا ہے(vii)شریف فیملی کے بیرز سرٹیفکیٹس کیسے فلیٹوں کی ملکیت میں تبدیل ہوئے(viii)نیلسن، نیکول کا حقیقی فوائد سمیٹنے والا کون ہے(ix) ہل میٹل کیسے بنی(x)حسن اور حسین کے پاس سرمایہ کاری کےلئے پیسہ کہاں سے آیا اوروہ کیونکر کروڑوں روپے گفٹ کے طورپر نوازشریف صاحب کو دیتے رہے۔ ان سوالات کے جوابات تا قیامت نہیں مل سکتے ہیں۔ حکومت کی قائم کردہ جے آئی ٹی کی کیا مجال کہ وہ وزیراعظم اور انکی فیملی کے متعلق درست تفتیش کرے۔ دوبارہ ریفرنس احتساب کورٹ کو ریفر کردیا جائیگا۔ پھر کئی ماہ وسال گزر جائینگے۔ ہائیکورٹ میں اپیل، نظر ثانی کی اپیل اور پھر دوبارہ سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائےگا۔مگر ہر جگہ گاڈ فادر اپنا کردار ادا کرتا جائےگا۔
دی گاڈ فادر1969میں شائع ہوئی جو نیویارک میں ایک مافیا خاندان کے جرم، دولت، طاقت اور ناجائز ذرائع خاص کر منشیات سے کمائی گئی ناجائز دولت کو قانونی بنانے کی داستان ہے۔ اس پر تین سیریز میں فلمیں بنیں پہلی فلم15مارچ1972ءاس کا دوسرا سیکوئیل 20دسمبر 1974ء اور تیسرا حصہ 25دسمبر 1990ءکو سینما گھروں کی زینت بنا۔ مارلن برانڈر نے کارلینو خاندان کے فیملی ڈان کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم اس بڑے ڈان کے قتل کے بعد اسکے چھوٹے بیٹے مائیکل کار لینو کے گرد گھومتی ہے کہ جو پہلے تو خاندانی کاروبار میں شامل ہونے سے انکار کردیتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ اپنی محبوبہ کے ساتھ آرام سکون کی زندگی بسر کرے مگر جب وہ اپنے باپ کا جانشین بنتا ہے تو وہ بڑا بے رحم ڈان کا روپ اختیار کرجاتا ہے اس ناول پر بنائی گئی تمام سیریز کو9اکیڈمی ایوارڈ ملے اور مارلن برانڈونے آسکر بھی حاصل کیا۔ وہ اپنے بھائی کے قتل کے بعد اپنے تمام حریفوں کونیست ونابود کردیتا ہے وہ کاروباری رقابت پر اپنے حریف سولوزواور آئرش پولیس آفیسر جو ڈرگ لارڈز کے پے رول پر ہوتا ہے انہیں بھی ہلاک کردیتا ہے اور پھرآخر میں انتہائی ذہانت سے اپنے کاروبار کو قانونی شکل دےکر فروخت کردیتا ہے اور نیویارک چھوڑ کر لیک ٹوہائیوچلا جاتا ہے۔ آج اگر پاکستان کی موجودہ صورتحال میں بڑی بڑی سیاستدان فیملیوں کودیکھیں تو چاہے پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن) یا تمام دوسری مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ کے عروج کی داستانیں انکے آباﺅ اجداد سے معلوم ہوگا ان نامور خاندانوں میں کسی ایک گاڈ فادر نے نسل درنسل کئی ”مائیکل کارلینو“ (گاڈفادر کا ہیرو) پیدا کئے ہیں جو جرم وسیاست کے اشتراک سے ایسی منظم تنظیمیں بناچکے ہیں جس کے ریکٹ کو توڑنا ناممکن ہے اور قانون کی عدالت میں شہادتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے پاکستان میں ہرطاقتور شخص کیخلاف گواہی دینا یا ثبوت تلاش کرکے عدالت میں ثابت کرنا ناممکن ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ پاکستان میں طاقتور سیاستدانوں، جرنیلوں، لینڈ مافیاز، ڈرگ مافیاز، بیوروکریٹس کے باہمی اشتراک پر مبنی سیٹس کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ پانامہ کیس میں قابل احترام ججز کے ریمارکس سے پاکستانی عوام کے دلوں میں یہ امید روشن ہوئی کہ شاید طاقتور افراد کا بھی احتساب ہوسکتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں ہر طاقتور فرد قانون کے کٹہرے میں قانونی داﺅ پیچ کے ذریعے بریت حاصل کرلیتا ہے۔ ایک بےچارہ ذوالفقار علی بھٹو ناکردہ گناہوں کی پاداش میں شکنجے میں آگیا وگرنہ آج تک پاکستان میں حکمرانو ںکا احتساب کرنا ناممکن ہے۔ نوازشریف کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنا ناممکن ہے۔ مریم نواز کےخلاف بھی کوئی الزام نہیں ہے، حدیبہ پیپرز مل کا مقدمہ ہمیشہ کےلئے بند ہوچکا ہے لہٰذا اب پانامہ پانامہ کے شور میں میاں نوازشریف کے مقدر کا فیصلہ عوام کی عدالت میں ہی ہوگا۔ مگر الیکشنوں میں میاں نوازشریف کو ہرانا لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہوگا۔
معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ آرٹیکل(3)184 کا استعمال جاری رہا تو پھر کوئی بھی نہیں بچے گا۔ لہٰذا اب اگر سپریم کورٹ کوئی فیصلہ سناتی ہے تو پھر چارلی ولسن کے حوالے سے شروع کرلے۔ چارلی ولسن وار امریکہ کی ریاست ٹیکساس سے منتخب ہونےوالے کانگریس مین چارلی ولسن کے متعلق لکھی گئی کتاب ہے۔ اس میں اسکی 1980ءکی دہائی میں سویت یونین کیخلاف افغان مجاہدین کی مالی مدد کرنے اور اسلحہ فراہم کرنے کے متعلق داستان ہے۔ سی آئی اے نے اس آپریشن کیلئے10ملین ڈالرز کا فنڈ مختص کیا تھا مگر چارلی ولسن نے سی آئی اے کے ایجنٹس میورک گسٹو سے مل کر منشیات کی سمگلنگ، اسلحہ اورعورتوں کی تجارت سے پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام سے لےکر سویت یونین کےخلاف لڑنے والی مجاہدین کمانڈز کو بھی ہرطرح کی بدعنوانی اور عیاشی میں مبتلا کردیا کیونکہ اسکی اپنی شہرت بھی پلے بوائے کی تھی۔ اس لیے عاصمہ جہانگیر صاحبہ نے طنز کی ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے فیصلے میں گاڈ فادر کا حوالہ دیا ہے اگر بدعنوانی کی بات کرنی ہے تو اگلا فیصلہ فیصلہ ضیاءالحق کے دور میں بدعنوانی کے حوالے سے لکھی گئی چارلی ولسن سے شروع کیا جائے۔
پاکستان میں چاہے مقدمہ سرے محل کا ہویا حدیبہ پیپرز ملز کا، یا احتساب عدالتوں میں گاڈ فادرز اور چارلی ولسن کے حواریوں کے ہوں۔ قانون شہادت کے تحت قائم کردہ تفتیشی نظام میں وائٹ کالرز کرائمز کوثابت کرنا ناممکن ہے چاہے یہ شرجیل میمن کیخلاف ہو یا ڈاکٹر عاصم کے یا کسی سول بیوروکریٹ کیخلاف کیوں نہ ہو۔ زیادہ سے زیادہ پلی بار گین کے ذریعے بریت ہوجائےگی۔ پانامہ فیصلے پر ہر طرف خوشیاں منائی جارہی ہیں۔ عمران خان بھی خوش اورنوازشریف بھی خوش واقعی یہ فیصلہ صدیوں تک یاد رہے گا ۔