کراچی (نیوز رپورٹر) سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ بیرونی دنیا میں ہمیں دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ عالمی قوتوں سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ مسلمانوں کو دہشت گرد کا لقب دیتے ہو، کیا کبھی کسی عیسائی یا دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو کیا یہ لقب دیا۔وہ پیغام پاکستان کی غلط تشریح کو مسترد کرنے کے عزم کے تحت منعقدہ جامعتہ الرشید کی سالانہ گریجویشن کی تقریب سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جنہوں نے یہ مظالم کیے ان کو سب جانتے ہیں۔ ایک ڈکٹیٹر نے امریکا کو اڈے دیے ان حکمرانوں نے غازیوں کو دہشت گرد قرار دیا۔ یہ جنگ جو ہماری نہیں ہے، کون ہمیں اس جنگ سے نجات دلائے گا۔ ملک میں دہشت گردی کی لہر ہے اس سے ہمارے بچے مر رہے ہیں۔ آخر اس کا سدباب کون کرے گا۔ ڈرون حملوں کے ردعمل میں بدامنی جنم لے رہی ہے۔ دہشت گردی اور جہاد کی تعریف ہونی چاہیے۔ اس وقت جب ضیاءالحق کی حکومت تھی، امام کعبہ سے فتویٰ لیا گیا اور اب بھی فتوے دیے جارہے ہیں۔ اس فتوے کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے لیکن اس حوالے سے قانون سازی ہونی چاہیے۔ جب ختم نبوت کا مسئلہ آیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے آئین میں وضاحت کرکے اس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کردیا۔ قانون کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے کہوں گا کہ پیغام پاکستان کو قانونی شکل نہیں دی گئی۔ شاید اسلامی نظریاتی کونسل اقدامات اٹھا رہی ہے۔ جو دستاویز پاکستان کے مفاد میں ہو آئینی تقاضا ہے کہ اسے آئینی شکل دی جائے۔ جب کبھی بھی بین الاقوامی ملی سطح پر دہشت گردی کی تعریف کا سوال اٹھتا ہے، فقہاء نے اس کا جواب دیا ہے کہ ہمارا دین امن کا پیغام دیتا ہے اور دہشت گردی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ ناظم اعلیٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان مولانا حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ عالمی و ملکی میڈیا اور قوتوں کے پروپیگنڈے کے باوجود دینی مدارس آگے بڑھ رہے ہیں۔ دہشت گردی اور دیگر الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔ جامعتہ الرشید ایک منفرد ادارہ ہے جہاں نہ صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ عصری علوم کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ ہم وہ علوم بھی دیتے ہیں کہ جو ہماری ضرورت بھی ہے اور ہمارا مقصد ہے۔ دینی مدارس اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ جدید علوم و فنون سے ہماری ضرورت بھی پوری ہورہی ہے۔ وہاں ہمارا مقصد بھی پورا ہورہا ہے۔ ہمارے دینی مدارس میں محتاط اندازے کے مطابق 2 سے 3 لاکھ طلبہ و طالبات کا اضافہ ہورہا ہے۔ ان مدارس نے ہمیشہ امن کا پیغام دیا ہے۔ پیغام پاکستان اس کا ثبوت ہے۔ ہم نے 2004ءمیں بھی دہشت گردی کے خلاف فتویٰ دیا جس کی پاداش میں وفاق المدارس کے نائب صدر مولانا حسن جان کو شہید کیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اگر سیکورٹی فورسز نے قربانیاں دی ہیں تو علماءکرام نے بھی جام شہادت نوش کیے ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پیغام پاکستان پر عمل کیا جائے۔ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے کہا کہ جامعتہ الرشید جیسے ادارے کا سامنے آنا اور آگے بڑھ کر کردار ادا کرنا خوش آئند ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد، سابق چیئرمین ایچ ای سی نے کہا کہ تعلیم پر انوسٹمنٹ کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ پیغام پاکستان جیسا ایک بیانیہ قوم کی آواز بن رہی ہے۔ اس کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔ بحیثیت قوم بہت مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ فرقوں میں بٹ چکے ہیں۔ نان ایشوز پر ایک دوسرے کو نشانہ بناتے ہیں۔ سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی نے کہا کہ میں نے کئی مدارس دیکھے ہیں۔ مدارس میں نقل نہیں ہوتی۔ ہڑتال نہیں ہوتی۔ طلبہ اور اساتذہ اپنے کاز سے مخلص ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر شعیب سڈل، سابق آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ آج جامعتہ الرشید آکر حیرت ہوتی ہے کہ یہاں نہ صرف دینی بلکہ اکنامکس‘ سائنس فنانس سمیت عصری علوم میں پڑھائی جارہی ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔
چوہدری فتخا ر
ڈکٹیٹر نے امر یکہ کو اڈے دیئے ‘جنگ ہماری ہے ‘کون نجات دلا ئےگا ، چوہدری افتخا ر
Apr 23, 2018