چین اور امریکہ کے مابین تجارتی جنگ کے حوالے سے پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی میں” عالمی تجارتی جنگ میں پاکستان کی حیثیت“ کے موضوع پر سیمینار منعقد ہوا جس سے اظہار خیال کرتے ہوئے ایس ڈی پی آئی کے نائب سربراہ ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان جاری تجارتی جنگ میں ترقی پذیر ممالک میں پیداواری لاگت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ خام مال کی قیمتوں میں اضافہ کا سبب ہو گا۔ اس سے افراط زر اور عالمی معیشت کو زبردست خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے ترقی پذیر ممالک بہت زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان ممالک میں کم اُجرت پر کام کرنے والے کارکن روز گار سے محروم ہو سکتے ہیں۔ امریکہ میں کم اُجرتی کارکنا ن بھی اس کے منفی اثرات کی زد میں آسکتے ہیں۔ یورپ اور برطانیہ کے تجارتی ادارے جو شراکتی بنیادوں پر تجارت کر رہے ہیں ان کے مابین تجارتی تعلقات سرد مہری کا شکار ہونے کا اندیشہ ہے۔ ڈاکٹر وقار احمد نے کہا کہ چین اور امریکہ تجارت مزید ترقی یافتہ معیشتوں کے لئے تجارتی ہمواری کا سبب ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لئے اچھی خبر ہو گی جب پاکستان لوہا ، سٹیل اور ایلومینئیم کے لئے خام مال چین اور امریکہ سے در آمد کرے گا۔ اس سے ہماری پیداواری لاگت میں کمی ممکن ہو سکے گی۔ انہوں نے عندیہ دیا کہ پاکستان اپنی تجارتی پالیسی اور صنعتی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے کر ترجیحی بنیادوں پر خصوصی مراعات کا اعلان کر ے اور غیر ضروری رکاوٹیں ختم کرے تاکہ صارفین کا اعتماد بحال ہو سکے۔ مستحکم ترقی کے لئے اقدامات ٹھوس بنیادوں پر ہوں جس میں مربوط سپلائی ، چین بھی شامل ہے۔ سیمینار سے خطاب کے دوران قومی ٹیرف کمیشن کی ممبر روبینہ اطہر نے کہا اس تجارتی جنگ کا سب سے بڑا خطرہ تحفظ ہے جس سے عالمی تجارت میں اس کا حصہ محدود ہوتا جاتا ہے۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان صارف کو ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسی عالمی تجارتی جنگ میں پاکستان کے پاس مربوط فراہمی کا نظام ہو یا نہ ہو ہم پاک چائنہ راہداری سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان کے لئے اقتصادی مشکلات سے زیادہ جغرافیائی سیاست کے ابتر حالات سے دشواریاں ہیں۔ جس میں بہتر صورت حال پیدا کرنے میں ہماری اعلیٰ مستند سفارتکاری اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ کیونکہ ایک طرف امریکہ دوسری جانب چائنہ ہے تو پاکستان کو انتہائی باریک بینی سے حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی، اس موقع پر قومی مسابقتی کمیشن کے ڈائریکٹر جنرل احمد قادر نے کہا کہ پاکستان میں کاروباری نوعیت تبدیل ہو رہی ہے ہمارے کاروباری ادارے عالمی سطح پر کاروبارکرنے والے داروں کا حصہ بن رہے ہیں ۔ عالمی معاہدات اور پسندیدہ اقوام کی حیثیت دیئے جانے والے ترقی پذیر ممالک اس سے مستفید ہو سکتے ہیں جیسے ہماری ٹیکسٹائل یورپ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کررہی ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے پروفیسر ڈاکٹر عثمان مصطفی نے کہا کہ چین اور امریکہ کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کا نقصان ، اشیا ءپیدا کرنے والے اور صارفین دونوں کے لئے نقصان کا سبب ہو سکتا ہے۔ پاکستان بین الاقوامی تجارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اگر اپنی پیداوار ی لاگت کم کرکے معیار کو بہتر بنائے ۔ پاکستان مینجمنٹ کو بہتر کرکے انسانی وسائل کی بہتر تربیت سے اقتصادیات میں پائیدار ترقی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے