ن لیگ + پیپلزپارٹی = پی ٹی آئی

پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سیاست تو بظاہر چل رہی ہے مگر یہ PTIکی وساطت سے ہی چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی ان کے خلاف جو بھی نیا ثبوت لاتی ہے وہ لے کر عدالتوں میں اور میڈیا کے پاس چلے جاتے ہیں اور اپنے تعلقات کے زور پر ریلیف بھی پاتے ہیں۔ یہ ریلیف چونکہ ان کے حق میں ہوتا ہے لہٰذا دونوں پارٹیوں کے میڈیا سیلز اسے پی ٹی آئی کی ناکامی قرار دیتے ہیں اور لوگوں کو یہی سمجھ آتی ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاست بظاہر الزامات کی سیاست ہے۔ آج تک جتنے بھی الزامات لگائے گئے ہیں چاہے وہ منی لانڈرنگ کے ہوں یا قرضہ خوری کے پانامہ کے حوالے سے۔۔۔ آج تک کچھ ثابت نہیں ہوا حالانکہ ثابت کرنے کے لیے ایک الزام کا منطقی انجام تک پہنچنا لازمی تھا۔ مگر کسی نے شروع سے ہی پی ٹی آئی کو یہ سبق پڑھا دیا کہ آپ کا کام صرف الزام جنم دینا ہے۔ باقی کام عدالتوں کا ہے حالانکہ عدالتیں بھی اسی نظام کا حصہ ہیں اور وہ صرف اور صرف پیش کردہ مواد پر فیصلہ کرنے کی پابند ہیں اور وہ یہی کرکے اپنا کام بطریقِ احسن سرانجام دے رہی ہیں۔ آج ایک خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نئی شہادت سامنے آ گئی ہیں۔ چلو آ گئی مگر ثابت کون کرے گا کہ اب میڈیا کافی طاقتور ہے اور پورے ثبوت عوام کے سامنے پیش کرتا ہے جس کی روشنی میں لوگ عدالتی فیصلوں سے بھی پہلے فیصلہ کرتے ہیں۔ جیسا کہ لوگوں نے فیصلہ دے دیا ہے کہ نیا پاکستان اگرچہ کرپشن فری ہو گا مگر لوگوں کو اس میں کوئی فوری ریلیف دستیاب نہیں۔ سو نئے پاکستان کی نئی حکومت مہنگائی کو فروغ دے رہی ہے۔ اگرچہ وزیر وزراء میڈیا پر آ کر یہ کہتے ہیں کہ مشکل کا ڈیڑھ سال ختم ہو گیا ہے اور اب نیا پاکستان نئی معاشی بنیادوں کے ساتھ چلا جائے گا مگر لوگ کب تک ریلیف کا انتظار کریں گے یہ اب تک کوئی نہیں بتا رہا کہ لوگوں کو ہر اعلان میں پبلک ریلیف کی عادت ہے اور وہ اعلانات خاص طور پر سیاسی اعلانات کا ردعمل ریلیف کی مقدار دیکھ کر دیتے ہیں۔
صاف بات ہے کہ اگر موجودہ حکومت اپنے بجٹ میں متعلقہ فریقوں کو مطمئن نہیں کرتی تو اس کا ٹائم ختم ہو جائے گا لیکن اگر وہ گذشتہ سال کی طرح اس سال بھی بجٹ میں فریقین کو مطمئن کر دیتی ہے تو پھر شاید مولانا کا ذاتی رنج و غم کام نہ آئے۔مگر انھوں نے بھی نوازشریف کے ساتھ مل کر ناشتہ ہی کیا ہے۔ عیادت کی ہے اور آخر میں سیاست پر بات کی ہے۔ زرداری سے تو ابھی انھوں نے ملنا ہے اس لیے کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ ان کی مسکراہٹ کا کیا مطلب نکلتا ہے کیونکہ انھوں نے بھی ٹرین مارچ کرکے دیکھ لیا ہے اور بلاول کے ذمے جو ڈیوٹی لگا رکھی ہے اس پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس کا کریڈٹ اسی کو یا اپنی پیپلزپارٹی کو ہی دینا چاہیں گے اس صورت میں مولانا فضل الرحمن کے حصے میں صرف پائیوں کی پلیٹ ہی آئے گی۔ جو نوازشریف نے انھیں ناشتے میں پیش کی تھی۔ن لیگ کی سیاست بھی نواز اور مریم کی پراسرار خاموشی اور اس کے بعد شہبازشریف کی چپ کے بعد حمزہ شہباز تک آ گئی ہے کہ انھوں نے نیب کے ان کے گھر پر چھاپہ مارنے سے قبل سیڑھی لگا کر ہمسایوں کے گھر اترنے اور چھاپے کے بعد اپنی چھت پر طلوع ہونے کے بعد عدالتی ریلیف حاصل کر لیا ہے۔ اور عدالت نے 17اپریل تک حکومتی اداروں کو منع کر دیا ہے کہ وہ حمزہ کو گرفتار نہیں کر سکتے ۔ اب 17 تاریخ بھی نزدیک ہی ہے لیکن شواہد بتا رہے ہیں کہ عدالتی ریلیف حاصل کرنے کا وکلاء سلسلہ جاری رکھیں گے تاکہ اس کی میڈیا پبلسٹی کرکے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا سلسلہ جاری رہے ۔پبلک ریلیف بہت بڑی قوت ہے ۔ انگریزوں نے بھی یہاں جو اپنا استحصال کا نظام چلایا وہ بھی پبلک ریلیف کے ساتھ ہی مشروط تھا مگر دیسی انگریزوں نے آہستہ آہستہ نظام میں سے پبلک ریلیف ختم کر دیا اور بظاہر وہ نظام اب چند کرپٹ لوگوں کے مفادات کے تحفظ کا نظام بن چکا ہے۔ مگر چونکہ یہ سیاسی کشمکش غیر انسانی بنیادوں پر چلی اور درحقیقت پبلک ریلیف دینے والے اور ختم کرنے والے دونوں گروپ لوگوں کے نمائندہ نہ تھے اس لیے دونوں کی کارروائی کا لوگوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ اوپر سے بعض وزراء کے بیانات خاصے مزاحیہ ہیں۔ فیصل واوڈا پی ٹی آئی کے ایک اہم راہنما ہیں انھوں نے پتہ نہیں کہ کس خواب میں دیکھا کہ ایک آدھ ہفتے میں نوکریوں کا سیلاب آنے والا ہے حالانکہ ملک کی مالی حالت پستی کی طرف جا رہی ہے اور حکومت وفاقی سطح پر دی جانے والی ساری سبسٹڈیاں حتی کہ حج کی سبسٹڈی ختم کر رہی ہے اور ملک کی مالی حالت کے باعث گئی گزری ایکسپورٹ 11فیصد اور کم ہو چکی ہے ان حالات میں ایسے بیانات زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں۔
مولانا فضل الرحمن صوبہ سرحد اور بلوچستان میں اپنے ساتھ ہونے والی ’’زیادتی‘‘ کا بدلہ چکانے کے لیے اپوزیشن کی 2بڑی پارٹیوں کو یکجا کرنے کی ایک بار پھر کوشش کر رہے ہیں اور ان کا ایجنڈا واضح ہے کہ ساری اپوزیشن پارٹیاں اب موجودہ حکومت کو بالکل ٹائم نہ دیں اور ختم کر دیں مگر مولانا سے بہتر کون جانتا ہوگا کہ اس طرح حکومتیں ختم نہیں ہوتیں اور دونوں بڑی پارٹیاں بجٹ کا انتظار کرنے پر یقین رکھتی ہیں جس کے بعد ان کے خیال میں مہنگائی اس قدر بڑھ جائے گی کہ انھیں صرف اور صرف ایشوز بتانے کی ضرورت ہو گی باقی کام وہ لوگ خود کر لیں گے جو حکومتیں بنانے اور گرانے کا اختیار رکھتے ہیں!!

ای پیپر دی نیشن