عمران خاں، عزم اور خوداعتمادی کا کوہِ گراں

قائد اعظم محمد علی جناح نے جس طرح مسلمانانِ ہند کی رہنمائی کرتے ہوئے ناممکن کو ممکن کردکھایا،ان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلائی اور ہندوؤں کی غلامی میں جانے سے بچایا،قائد کے اس کارنامے اور کمال کو دیکھ کر علامہ اقبال کے اس شعر کی حقانیت پر یقین راسخ ہوجاتا ہے گیا۔؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
صدیوں بعد مسلم برصغیر میں یہ دیدہ ور پیدا ہوا جس نے تاریخ کا رُخ موڑا اور چودہ سو سال بعد دنیا کے نقشے پریاست مدینہ کے بعد ایک اسلامی نظریاتی ریاست کا وجود منصہ شہود پرنمودار ہوا۔محمد علی جناح وہ نابغۂ روز گار تھے جن کے بارے میں عالمی تاریخ دان سٹینلے والپرٹ نے یوں لکھا ہے کہ دنیا میں کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑا' کچھ دنیا کے نقشے میں بعض تبدیلیوں کا موجب بنے اور بمشکل ہی کوئی ایسا ہے جس کو ایک قومی ریاست کے قیام کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہے لیکن قائد اعظم ایک ایسے شخص تھے جنہوں نے یہ تینوں کام کیے۔قیام پاکستان کو پون صدی ہونے کو ہے،پاکستان پر جمہوری اور فوجی حکمران حکومت کرتے رہے مگر پہلی مرتبہ آج عمران خان کی شخصیت میں قائد اعظم کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہی جذبہ حب الوطنی،ملک و قوم کیلئے وہی کچھ کرگزرنے کا عزم و ارادہ، وہی خوداری اور وہی خود اعتمادی عمران خان کی شخصیت میں نظر آرہی ہے۔میرٹ پر یقین محکم ہے،جس کام کا ارادہ کرتے ہیں تو ہمت مرداں مدد خدا ایک زندہ جاوید حقیقت بن کر سامنے آتی ہے۔اس نے شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی کو اس کے باوجود حقیقت کے وجود میں ڈھال دیا کہ رفقاء و ماہرین ان منصوبوں کو ناقابل عمل قرار دیتے تھے۔پوری دنیا میں نجی شعبہ میں کینسر ہسپتال کے قیام کا تصور ہی نہیں ہے،آج بھی یہ دنیا میں واحد عالمی معیار کا پرائیویٹ ہسپتال ہے جہاں 75 فیصد بے وسیلہ لوگوں کا فری علاج ہوتا ہے۔میرٹ کی بات کریں تو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ان کا کوئی رشتے اقتدار میں نہیں،ان پر سخت تنقید کرنے والوں میں انکے قریبی رشتے دار حکومت میں حصہ دار نہ بنانے پر سب سے آگے ہیں۔بطور کپتان کارکردگی پر عدم اطمینان کے باعث اپنے کزن ماجد خان کو بھی ٹیم سے ڈراپ کردیا تھا جو کرکٹ میں ان کے استاد بھی تھے۔
اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان تاریخ ساز فیصلے کررہے ہیں۔اکثریت کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت مرکز اور پنجاب میں تنے ہوئے رسے پر چل رہی ہے مگر عمران خان کوئی مصلحت اور کمزوری دکھانے،کسی دباؤکو خاطر میں لانے اور عددی اعتبار سے پاکستان کی تاریخ کی سب سے بڑی اپوزیشن کی بلیک میلنگ میں آنے کیلئے قطعاً تیار نہیں ہیں۔کرپشن کے خاتمے اور کرپٹ مافیا کے کڑے احتساب کا عہد کیا، اس سے سرمو پسپائی کیلئے آمادہ نظر نہیں آتے۔محض حکومت میں آنے کے آٹھ ماہ میں یہ صرف عمران خان ہی ہیں جو کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردو بدل کاجرأت مندانہ فیصلہ کر سکتے ہیں اور ایسے وزراء کو ہٹایا اور کئی کے قلمدان تبدیل کئے گئے جن کو پارٹی کے اندر اور باہر بڑا مضبوط سمجھا جارہا تھا۔اسد عمر کے بغیر وزارت خزانہ چلنے کا پارٹی کے اندر تصور ہی نہیں پایا جاتا تھا مگر اس وزارت میں بہتری عمران خان کے ذہن میں تھی،اس لئے اسد عمر کو اس کے باوجود تبدیل کردیا گیا کہ وہ آئی ایم ایف کیساتھ کلیدی مذاکرات کررہے تھے اور بجٹ بھی سر پر ہے۔وزیر خزانہ کی تبدیلی انکے لئے بہت بڑا چیلنج ہے اور یقینا وہ اس چیلنج سے عہدہ براء اور سرخرو ہونگے۔اعتماد ایسا کہ بجٹ جو جون میں پیش ہونا تھا وہ جولائی میں جاتا نظر آرہا تھا مگر اب 24مئی کو پیش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔عمران خان نے جس خود اعتمادی کیساتھ کابینہ میں تبدیلیاں کیں اس سے انکی حکومت پر گرفت مضبوط ترین ہوئی ہے۔تمام وزراء اب مزید محنت سے کام کریں گے۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے بجائے اپنے کام سے کام رکھیں گے اور تمام تر صلاحیتیں وزارت کی بہتری پر صرف کرینگے۔عمران خان نے عثمان بزدار اور محمود خان کو بھی خبر دار کیا ہے جو رمضان المبارک کی آمد آمد کے موقع پر ضروری ہے۔ رمضان سے قبل منافع خور سرگرم ہوکر حکومتی رٹ کو مفلوج کر دیتے ہیں۔مہنگائی کا طوفان کبھی تھما نہیں،مگر رمضان المبارک میں اس میں اضافہ در اضافہ ہوجاتا ہے،یہ صوبائی حکومتوں کیلئے امتحان ہے،اگر یہ مہنگائی کی روک تھام اور گراں فروشوں و ناجائز منافع خوروں پر قابو نہ پا سکیں تو تحریک انصاف کے وزرائے اعلیٰ کو مرکزی وزراء کی طرح تبدیل کرنے میںتاَمّل سے کام نہ لیا جائے۔عمران خان کے گڈ گورننس کیلئے سب سے بڑے ہتھیار میرٹ اور خود اعتمادی ہیں۔ کہا جاتا ہے:خود اعتمادی وہ طاقت ہے جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتی ہے۔خود اعتمادی کے بل بوتے پر وہ سیاست،معیشت اور معاشرت میں انقلابی تبدیلیوں کی کما حقہٗ صلاحیت اہلیت اور سب سے بڑھ کر جذبہ اور ہمت وحوصلہ رکھتے ہیں۔کابینہ میں اس طرح کی تبدیلیاں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوئی ہیں،تاریخ میں ہر کام ہی پہلی بار ہوتا ہے اور وہی تاریخ ساز ہوتا ہے ورنہ مکھی پر مکھی مارنے سے تاریخیں رقم نہیں ہوسکتیں۔اپوزیشن عمران خان کے اس تاریخ ساز اقدام پر بے جا واویلا کررہی ہے جو اپوزیشن کے تاریک مستقل کی عکاس بھی ہے۔نجی محفلوں میں مخالف بھی اعتراف کرتے ہیں کہ عمران خان بہادر لیڈرہیں ،وہی کابینہ میں ردوبدل کرسکتے ہیں ،کپتان کوپتا ہے کس کھلاڑی کوکہاں استعمال کرنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...