سری لنکا میں ایسٹر پر دہشت گردی کی بدترین وارداتیں۔ 225 ہلاکتیں‘ دنیا بھر میں سوگ
سری لنکا میں ایسٹر کی تقریبات کے دوران دارالحکومت کولمبو سمیت چار مختلف شہروں میں تین گرجا گھروں‘ تین ہوٹلوں اور دیگر مقامات پر دو خودکش حملوں اور چھ بم دھماکوں کے نتیجے میں اتوار کے روز مجموعی 225‘ افراد ہلاک اور پانچ سو سے زائد زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونیوالوں میں امریکی اور برطانوی شہریوں سمیت 35 غیرملکی اور زخمی ہونیوالوں میں چار پاکستانی باشندے بھی شامل ہیں۔ متعدد زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے جس کے باعث ہلاکتوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے۔ دہشت گردی کی یکے بعد دیگرے ہونیوالی ان وارداتوں کے بعد سری لنکن وزیراعظم وکرما سنگھے نے قومی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کرلیا اور سری لنکا میں کرفیو نافذ کردیا گیا جبکہ سری لنکا میں دو روز کی تعطیل کا اعلان بھی کردیا گیا۔ پولیس کے مطابق دھماکے اس وقت ہوئے جب مسیحی برادری مذہبی رسومات کی ادائیگی کیلئے گرجا گھروں میں موجود تھی۔ سری لنکن حکام کے مطابق ایک دھماکہ کولمبو میں سینٹ انتھونی چرچ میں ہوا جہاں لوگ بڑی تعداد میں ایسٹر کی دعائیہ تقریبات میں شرکت کیلئے موجود تھے۔ اس دھماکے میں وسیع پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ حکام کیمطابق 13 مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جو مقامی رہائشی ہیں۔ سری لنکا کے صدر متھری پالاسری نے دہشت گرد حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سری لنکا میں دہشت گردوں کیلئے کوئی جگہ نہیں‘ حملوں میں ملوث عناصر کو منطقی انجام تک پہنچایا جائیگا‘ عوام متحد رہیں۔
پاکستان سمیت پوری عالمی برادری نے سری لنکا دہشت گردی کی شدید مذمت کی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ہم دکھ کی اس گھڑی میں سری لنکن عوام اور حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سری لنکن وزیراعظم سے ٹیلی فون پر گفتگو بھی کی اور انہیں وزیراعظم عمران خان کے جذبات سے آگاہ کیا۔ پوپ فرانسس نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ حملے کی افسوسناک خبر اپنے ہمراہ دکھ درد کو لے کر آئی۔ انہوں نے حملے کا نشانہ بننے والی مسیحی برادری کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ اسی طرح امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی سری لنکا میں سفاکانہ حملوں کی پرزور مذمت کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ امریکہ اس کڑے وقت میں سری لنکا کی مدد کیلئے تیار ہے۔ دریں اثناء برطانوی وزیراعظم تھریسامے‘ نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جسینڈا آرڈرن‘ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور یورپی یونین کے کمشنر چین گلائو جنکم نے سری لنکا میں ہونیوالی دہشت گردی پر دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ حملے دنیا کیلئے برے دن کے مترادف ہیں۔
تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ سری لنکا میں جہاں بدھ مت کا سرکاری سرپرستی میں غلبہ ہوا‘ سنہالی اور تامل زبان بولنے والوں میں انتہاء درجے کی کشیدگی رہی ہے اور اس کشیدگی کے نتیجہ میں ہی سری لنکا 80ء کی دہائی میں خانہ جنگی کی لپیٹ میں آیا جس کے دوران تاملوں نے خودکش سکواڈ تیار کرکے خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اس طرح دنیا میں خودکش بمبار روشناس کرانے کا سہرا بھی سری لنکن تاملوں کے سر ہے۔ سری لنکن سنہالی باشندے سری لنکن حکومت کے تحفظ میں رہے جبکہ تامل دہشت گردوں کی بھارت اپنے مقاصد کے تحت سرپرستی کرتا رہا جس کی بنیادپر بھارت کو سری لنکا میں تسلسل کے ساتھ ہونیوالی دہشت گردی کا محرک قرار دیا جاتا رہا۔ اگرچہ بھارت نے اپنے سر لگنے والا یہ الزام دھونے کیلئے سری لنکا کو خانہ جنگی سے نبردآزما ہونے کیلئے فوجی کمک بھی بھیجی تاہم بھارت آج تک سری لنکن تاملوں کی سرپرستی کے الزام سے خود کو باہر نہیں نکال پایا۔ بے شک سابق بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی سری لنکا‘ بھارت کشیدگی کے تناظر میں ہی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے مگر سری لنکا میں تامل دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونیوالے سنہالیوں کے قتل عام کا آج بھی بھارت کو ذمہ دار گردانا جاتا ہے۔ سری لنکا کی حکومت نے ربع صدی تک دہشت گرد تاملوں کا مقابلہ کرتے ہوئے بالآخر 2005ء میں ان پر بزور قابو پایا اور بچ جانیوالے دہشت گردوں نے ہتھیار پھینک کر دہشت گردی سے تائب ہونے کا اعلان کیا۔
بلاشبہ سری لنکا حکومت نے عزم و ہمت کے ساتھ اور قوم پرستی کے جذبے کو فروغ دیکر اپنے ملک میں دہشت گردی کا تدارک کیا جس کے بعد وہاں امن و امان کی فضا بحال ہوئی اور یہ ملک دوبارہ عالمی سیاحوں کی سرگرمیوں کا مرکز بنا جبکہ ایسٹر کے موقع پر گزشتہ روز مسیحی برادری کے ساتھ ہونیوالی سفاکانہ دہشت گردی نے پورے سری لنکا کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان حملوں کے بعد مزید سفاکانہ ذہنیت کا مظاہرہ بھارتی میڈیا اور وہاں کی ہندو انتہاء پسند لیڈرشپ نے دہشت گردی کی ان وارداتوں کا ناطہ پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی مذموم سازشوں کے تحت کیا جس کیلئے انہوں نے سنہالی انتہاء پسندوں کے ظلم وجبر کا شکار ہونیوالے سری لنکن مسلمانوں کے کسی ممکنہ ردعمل کا جواز گھڑا۔ یہ حقیقت ہے کہ تامل دہشت گردوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد سنہالی انتہاء پسندوں نے اپنی مذہبی جنونیت کا رخ بدھ مسلم فسادات کی آگ بھڑکا کر سری لنکا کی چھوٹی سی اقلیت مسلمانوں کی جانب موڑا تھا جس کے نتیجہ میں سری لنکن مسلمانوں کا کاروبار تباہ ہوا اور سینکڑوں مسلمان نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تاہم ان مظالم کے باوجود سری لنکن مسلمانوں نے کبھی دہشت گردی جیسے کسی ردعمل کا مظاہرہ نہیں کیا جو سری لنکا کے تامل اور سنہالی باشندوں کا خاصہ رہا ہے چنانچہ سری لنکا میں ہونیوالی گزشتہ روز کی بدترین دہشت گردی کا ملبہ مسلم انتہاء پسند تنظیموں اور اس ناطے سے پاکستان پر ڈالنے کی بھارتی مذموم سازش کو عالمی برادری میں کسی صورت پذیرائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اسکے برعکس تامل دہشت گردوں کی سرپرستی کے تناظر میں سری لنکا دہشت گردی کے حوالے سے عالمی میڈیا میں بھارت کی جانب ضرور انگلیاں اٹھ رہی ہیں جبکہ تاملوں کے خودکش بمبار بھی بھارتی سرپرستی میں ہی پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ سری لنکا میں ایسٹر کے موقع پر ہونیوالی دہشت گردی کے پس پردہ اصل محرکات کا کھوج لگانا ضروری ہے جس کیلئے سری لنکن حکومت پرعزم بھی ہے اور پاکستان کی جانب سے سری لنکا کو نعشوں کی شناخت کیلئے فرانزک معاونت کی پیشکش بھی کی جاچکی ہے۔ اگر اس دہشت گردی میں مقامی تاملوں کے ملوث ہونے کے شواہد مل گئے تو اس سے سری لنکن دہشت گردی کا کھرا بھارت میں نکلنا بعیداز قیاس نہیں ہوگا۔
اگر اس خطہ بشمول پاکستان‘ افغانستان‘ ایران‘ بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں کے پس پردہ محرکات کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو ان میں بھارتی سرپرستی ہی دہشت گردوں کے شامل حال نظر آتی ہے کیونکہ بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر خطے کے تمام ممالک کے ساتھ چھیڑچھاڑ جاری رکھی ہوئی ہے اور بنگلہ دیش کے سوا سارک تنظیم کا کوئی رکن ملک بھارتی دستبرد سے نہیں بچ پایا۔ سری لنکا کے ساتھ بھارتی دشمنی کا تو باقاعدہ پس منظر موجود ہے جبکہ دو سال قبل بھارت نے نیپال اور بھوٹان کا ناطہ بھی تنگ کئے رکھا۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد حکومت تو عملاً بھارتی کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہوئے بالخصوص پاکستان کی سالمیت کیخلاف اسکی سازشوں میں شریک کار ہوتی ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ دشمنی بھارت کی سرشت میں شامل ہے جس نے پاکستان کی سالمیت کمزور کرنے کی نیت سے اس پر جنگیں ہی مسلط نہیں کیں بلکہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے ذریعے بھی وہ پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں میں ہمہ وقت مصروف رہتا ہے۔ اس کیلئے بھارت پاکستان میں فرقہ ورانہ کشیدگی کی فضا بھی ہموار کرتا ہے اور علاقائی و لسانی بنیادوں پر بھی یہاں دہشت گردی کراکے کشیدگی بڑھاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے ہزار گنجی کوئٹہ اور گوادر بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کی سفاکانہ وارداتیں بھارت کی اسی گھنائونی سازش کا شاخسانہ ہیں جبکہ اب پلوامہ حملہ کے بارے میں بھی خود بھارتی میڈیا اور دانشوروں کی جانب سے یہ نتیجہ اخذ کیا جارہا ہے کہ اس حملے میں مودی سرکار ہی کا ہاتھ ہے جس نے بھارتی انتخابات کے موقع پر پاکستان پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کی نیت سے اپنے فوجیوں کے خون سے ہاتھ رنگے اور پھر پاکستان کے ساتھ کشیدگی انتہاء کو پہنچا کر بھارتی ہندوئوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی۔
اب بھارت کی جانب سے جس شدومد کے ساتھ سری لنکا کی دہشت گردی کا ناطہ پاکستان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی جارہی ہے اس تناظر میں کوئی بعید نہیں کہ پاکستان پر ملبہ ڈالنے کی نیت سے بھارت نے ہی اپنے آلۂ کار تامل دہشت گردوں کے ذریعے سری لنکا میں مسیحی برادری کے خون کی ہولی کھیلی ہو۔ بے شک دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور وہ اپنے سرپرستوں اور سہولت کاروں کے مذموم مفادات کی تکمیل کیلئے ہی ان ٹارگٹس تک پہنچتے ہیں جو انکے سرپرستوں کی جانب سے انہیں تفویض کئے جاتے ہیں۔ افغانستان میں القاعدہ اور طالبان تنظیموں نے بے شک نیٹو فورسز کی افغان سرزمین پر چڑھائی کے ردعمل میں دہشت گردی کا راستہ اختیار کیا تھا جس میں پاکستان کو بھی امریکی فرنٹ لائن اتحادی ہونے کا بدترین دہشت گردی کی صورت میں خمیازہ بھگتنا پڑا مگر اسی القاعدہ اور انہی طالبان کو نائن الیون سے پہلے امریکہ اپنے مفادات کے تحت استعمال کرتا رہا۔ یقیناً امریکہ کی مسلط کی گئی عراق اور افغان جنگ کے نتیجہ میں ہی دہشت گرد تنظیم داعش کا وجود عمل میں آیا جو درحقیقت امریکی ساختہ تنظیم ہے اور اسے امریکہ نے اپنے مفادات کے تحت ہی عرب ریاستوں میں انتشار پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا۔ اسی تناظر میں پوری مسلم دنیا داعش سے لاتعلقی کا اعلان کرتی ہے اور اسکی سرکوبی کیلئے کسی مشترکہ حکمت عملی کے بارے میں سوچ بچار کرتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے علاقے الزلفی میں سعودی سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کا جو حملہ ناکام بنایا جس میں پانچ دہشت گرد مارے گئے‘ یہ حملہ داعش کے دہشت گردوںکی جانب سے ہی کیا گیا تھا جس کی ذمہ داری داعش نے قبول بھی کرلی ہے اس لئے داعش یا کسی دوسری انتہاء پسند تنظیم کی کسی دہشت گردی میں کسی مسلم ملک کا بھلا کیونکر ہاتھ ہو سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے اسی تناظر میں سری لنکا دہشت گردی کی مذمت کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ پاکستان خود بھی دہشت گردی کا شکار ہے اس لئے ہم سری لنکا کے درد کو پوری گہرائی کے ساتھ محسوس کر سکتے ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا ملبہ ڈالنے کے فیشن میں مبتلا عالمی اور علاقائی قیادتوں کو سنجیدگی کے ساتھ نیوزی لینڈ کی مساجد سے سری لنکا کے گرجا گھروں تک ہونیوالی دہشت گردی کا جائزہ لینا اور دنیا کو دہشت گردی کے ناسور سے نجات دلانے کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنا چاہیے بصورت دیگر بھارت جیسی توسیع پسندانہ مقاصد رکھنے والی بدطینت قوتیں دہشت گردوں کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے چارہ بناتی اور انسانیت کو لہولہان کرتی رہیں گی۔
عالمی قیادتیںبھارتی سازشوں سے الرٹ رہیںاور دہشتگردی کے قلع قمع کیلئے سر جوڑ کر بیٹھیں
Apr 23, 2019