دوسری عظیم ترین کساد بازاری

Apr 23, 2020

نعیم قاسم

دنیا نے پہلی عظیم ترین کساد بازاری کا مظاہرہ 1929-30ء میں دیکھا جس کی وجہ سے دنیا کو دوسری جنگ عظیم کا سامنا کرنا پڑا۔
امریکا اور اس کے اتحادی ممالک نے کساد بازاری کے دوران جمع شدہ اشیاء صارفین اور اشیائے سرمایہ کے سٹاک کو بیچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنی معاشی نوآبادی میں تبدیل کرنے کے لیے دوسری جنگ عظیم کو چھیڑ دیا۔ جس کے جواب میں قوم پرست جرمنی اور جاپان نے باہمی اتحاد کر لیا۔ امریکی اتحادی ممالک نے جنگ عظیم دوم میں امریکی اسلحہ خریدنا شروع کیا جس کی وجہ سے امریکی معیشت میں زر کے بہائو میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا اور وہاں پر پڑے ہوئے سٹاک استعمال میں آنے شروع ہو گئے۔ جنگ عظیم دوم کے خاتمے پر امریکہ نے اپنی اشیاء و خدمات اور صنعتی اشیاء کو جاپان اور جرمنی کو برآمد کر کے 1929-30ء کی بیروزگاری پر بہت تیزی سے قابو پا لیا۔ اس معاشی بحران پر قابو پانے کے لیے جاپان پر امریکہ نے دو ایٹم بم پھینک کر اُسے پتھر کے زمانے میں پہنچا دیا۔ جرمنی اور جاپان کی تباہی کے بعد امریکا اقتصادی اور فوجی لحاظ سے پوری دنیا پر قابض ہو گیا اور مغربی یورپ اس کا حلیف بن گیا۔ امریکہ میں عظیم ترین کساد بازاری کا آغاز 4 ستمبر 1929 کو ہوا جب امریکہ میں سٹاک ایکسچینج بری طرح کریش کر گیا۔ کارخانوں اور صنعتوں میں اِسقدر زائد پیداوار ہو گئی کہ ان کارخانوں اور صنعتوں نے اشیاء کی پروڈکشن بند کر دی۔ امریکہ میں تین کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہو گئے۔ بیروزگاری کی شرح 22 فیصد تک جا پہنچی۔ مارکیٹوں میں اشیاء موجود تھیں مگر بیروزگاری کے باعث خریداروں کے پاس قوت نہیں تھی۔ کلاسیکی نظریے جسے J.B. Say نے پیش کیا تھا کہ رسد اپنی طلب خود پیدا کرتی ہے۔ مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ اِن حالات میں جے ایم کینز نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنے اخراجات میں اضافہ کرے تاکہ لوگوں کے پاس کیش رقم کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ جب کساد بازاری میں لوگوں کے پاس نقدی ہوتی ہے تو وہ اشیاء و خدمات کی طلب بڑھاتے ہیں جس سے زائد اشیاء کا سٹاک ختم ہوتا ہے تو کارخانے دار دوبارہ پروڈکشن شروع کر دیتے ہیں۔
آج دنیا میں کرونا وائرس نے 70 فیصد کاروبار اور صنعتی سرگرمیوں کو روک دیا ہے۔ پہلی دفعہ امریکی تیل کی مارکیٹ مکمل طور پر کریش کر گئی ہے۔ پیداواری سرگرمیوں کے نہ ہونے اور ٹرانسپورٹ کی بندش کی وجہ سے دنیا میں تیل کی ضرورت آدھے سے بھی کم ہو گئی ہے۔ اب امریکی تیل کوئی مفت لینے پر بھی تیارنہیں ہے اور اس کی قیمت منفی 37 ڈالرز فی بیرل پر آ گئی ہے۔ کتنی دلچسپ صورتحال ہے کہ اگر آپ ایک بیرل امریکی تیل خریدتے ہیں تو فروخت کندہ آپ کو اس کے ساتھ 37 ڈالرز فی بیرل بھی ادا کرے گا تاہم پاکستان آنے والے خام تیل کی قیمتیں 26 ڈالرز فی بیرل پر برقرار ہیں۔ جس طرح امریکا میں 29 اکتوبر 1929 کو Black Tuesday کا نام دیا جاتا ہے جس سے امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک آمدنی ، ٹیکس وصولیاں ، منافع جات اور قیمتیں 50 فیصد سے زیادہ کر گئیں۔ دنیا کی آمدنی میں 15 فیصد کمی آ گئی۔ امریکہ میں بیروزگاری کی شرح 23 فیصد اور بہت سارے ممالک میں یہ شرح 33 فیصد تک جا پہنچی۔ زرعی اشیاء کی قیمتیں 60 فیصد تک گر گئیں جس کی وجہ سے کسانوں کے مصارف پیدائش بھی پورے نہ ہوئے 20 اپریل 2020 سوموار کا دن بھی امریکا کی تیل کی صنعت کے لیے بدترین دھچکا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا کے تمام ممالک میں تیل اسٹوریج کے ٹینک بھرے ہوئے ہیں۔
انٹرنیشنل انرجی ایڈمنسٹریشن کے مطابق رواں ماہ دنیا بھر میں تیل کی طلب میں یومیہ 2 کروڑ 90 لاکھ بیرل کی کمی ہو رہی ہے۔ وہ تیل جو کبھی 150 ڈالرز فی بیرل پر بکتا تھا جس کی وجہ سے امریکہ نے مشرق وسطی کے ممالک پر اپنا معاشی تسلط قائم کئے رکھا۔ مگر اپنے ملک میں شیل تیل کی دریافت کے بعد وہ دنیا میںتیل کا سب سے بڑا برآمد کندہ بن گیا۔ آج اس کی یہ حالت ہے کہ اس کی کمپنیاں خریداروں کو پیسے دے رہی ہیں کہ ہمارا تیل اُٹھا لو۔ مگر مئی میں 70 لاکھ بیرل تیل ذخیرہ کرنے کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور اس وقت 160 ملین بیرل تیل بحری جہازوں میں ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔
بین الاقوامی کساد بازاری کی وجہ سے پاکستان میں تیل کا امپورٹ بل 14 بلین ڈالرز سے کم ہو کر تقریباً 6 بلین ڈالرز پر آچکا ہے۔ حکومت پاکستان کو تیل کی کم قیمتوں کا کم از کم 50 فیصد فائدہ عوام تک پہنچانا چاہئے اور پٹرول کی قیمت 75 روپے فی لٹر قائم کرنے کے باوجود حکومت کو پٹرولیم ٹیکسز کی صورت میں 80 ارب روپے ماہانہ کی وصولی حاصل ہو جائے گی۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان میں کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملنا شروع ہو جائے گا اور اشیاء خورد و نوش کی قیمتوں میں بھی نمایاں کمی آ جائے گی۔ سٹیٹ بنک جہاں اپنے ڈسکائونٹ ریٹ کو 9 فیصد پر لے آیا ہے اس میں مزید کمی ممکن ہو گی کرونا کی وجہ سے جہاں دنیا کے بیشترممالک کی معیشتوں کو زبردست دھچکا لگا ہے وہیں آئی ایم ایف نے پاکستان سمیت 76 ممالک کے 40 ارب ڈالرز کے قرضوں کی ادائیگی ایک سال کے لیے مؤخر کر دی ہے۔ اس اسکیم کے تحت پاکستان کے تقریباً 12 ارب ڈالرز کے قرضوں کی ادائیگی مؤخر ہو جائے گی۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے پاکستان کی وصولیوں کے اس سال کے ہدف میں نہ صرف 900 ارب روپے سے زائد کی کمی کی ہے بلکہ 1.40 ارب ڈالرزکے اضافی امدادی پیکج کی بھی منظوری دی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس سنہرا موقع ہے کہ وہ اپنی معاشی پالیسیوں کی سمت درست کر کے کرونا کے ساتھ معیشت کو تیل کی کم قیمتوں اور قرضوں کے بوجھ سے عارضی ریلیف حاصل ہونے کے بعد زراعت اور چھوٹے پیمانے کی صنعتوں کو بھرپور مالی معاونت کے ذریعے اِس عالمی کساد بازاری میں جلد از جلد احیاء یعنی Revival Phase میں داخل ہو جائے۔

مزیدخبریں