حفیظ الرحمن قریشی
انسان کی تاریخ نے بڑی بڑی تباہیاں دیکھیں۔ ان میں وہ تباہیاں بھی شامل ہیں جو اللہ کے رسولوں اور نبیوں کی دعوت کو نہ ماننے والی قوموں اور بستیوں پر آئیں۔ تاریخ میں ایسی تباہ کن جنگوں کا سراغ بھی ملتا ہے جو دو قوموں یا دو قبیلوں میں عشروں بلکہ سو سال تک جاری رہیں۔ گزشتہ صدی میں دو بڑی جنگیں ہوئیں جو جنگ عظیم اول اور دوئم یا عالمی جنگیں کہلائیں۔ ان میںکروڑوں افراد ہلاک ہوئے ، لیکن عالمی یا عالم گیر جنگیں ہونے کے باوجود ان کے اثرات سے شمالی اور جنوبی امریکہ محفوظ رہے۔ پچھلی صدیوں میں طاعون ، قحط ، چیچک ، خسرہ ، ملیریا، ہیضہ ، ہسپانوی فلو اور ریبولا وغیرہ نے بھی بڑی تباہی مچائی، طاعون سے تین صدیوں میں کرۂ ارضی کی ایک تہائی آبادی لقمہ اجل بنی۔ طوفانِ نوحؑ سے بھی معلوم دُنیا آسمان سے برسنے اور زمین سے اُبلنے والے پانی میں غرق ہوئی ، صرف وہ لوگ بچے جو حضرت نوحؑ کی کشتی میں سوار تھے۔ یہ ساری تباہیاں اور غارت گریاں کُھلی آنکھ تو دور کی بات بھاری بھرکم دوربینوں سے بھی نظر نہ آنے والے وائرس، کرونا کے سامنے ہیچ ہیں جس نے پوری دُنیا کو اس طرح لپیٹ میں لے لیا ہے کہ فضائوں میں اُڑنے والے طیاروں کو غائب اور زمین پر بسنے والے انسانوں کو دھکیل کر، گھروں میں مقید کر دیا ہے۔ کارخانے ، فیکٹریاں اور کاروبار ٹھپ ہو گئے ، معاشی سرگرمیوں کی ایسی تیسی پھیرنے کے علاوہ معاشرتی اقدار کو اس طرح تلپٹ کر دیا کہ آشنا اور واقف کار ایک دوسرے سے دور بھاگنے لگے ، مصافحہ اور معانقہ مصیبت کو گلے لگانے کے مترادف بن گیا۔ سلام دُعا سے پہلے لاحول تکیۂ کلام ضروری ٹھہرا۔
یہ تو طے ہے کہ ، بکثرت ہلاکتوں کے باوجود دُنیا کی موجودہ سات ارب تیس کروڑ آبادی میں سے اربوں انسان بچ نکلیں گے لیکن جہاں تک معیشت اور معاشرت کو لگنے والے دھچکے کا تعلق ہے وہ تباہی کے لحاظ سے ماضی کی تمام آفات سے کہیں زیادہ سنگین ہو گا۔ اقتصادیات کو سنبھلنے میں عشروں لگیں گے ۔ بعض لوگ اسے عذاب الٰہی قرار دیتے ہیں اور بعض اسے آثارِ قیامت لیکن نہ یہ عذاب الٰہی ہے اور نہ قرب قبامت کی علامت، بلکہ یہ خالق کی طرف سے مخلوق کو تنبیہ (انذرار) کی حیثیت رکھتی ہے۔ زندگی کا ہر شعبہ بگاڑ سے دوچار ہو چکا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں سے شروع ہونے والے اخلاقی بگاڑ نے تیسری دُنیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ معیشت اور معاشرت میں ہونے والا ہر کام غضب الٰہی کو دعوت دینے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے وسائلِ معیشت تمام انسانوں کے لئے یکساں پیدا کئے لیکن ان پر ترقی یافتہ ممالک سانپ بن کر بیٹھ گئے۔ جن ملکوں کا استحصال کیا جانے لگا اُنہیں اول اور دوم نہیں بلکہ تھرڈ ورلڈ دُنیا کہا جانے لگا۔ غریب قوموں کے وسائل کے استحصال کے لئے عالمی بنک اور آئی ایم ایف ایسے پُرفریب ناموں سے اداروں کی داغ بیل ڈالی گئی ، غریب ملکوں کی مصنوعات کو سستے داموں خریدا اور اپنی مصنوعاتکو مہنگا بیچا جانے لگا۔ پھر ان ملکوں کو اسلحہ بیچنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑنے کی راہ پر لگا دیا۔ کیا بھارت ایسے ہمسائے کے ہوتے ہوئے ، پاکستان کے لئے ہتھیاروں کے حصول سے اجتناب ممکن ہے۔ قریب قریب اسلحہ کے خریدار دوسرے ملکوں کا بھی یہی حال ہے ، کبھی ایسانہیں سُنا کہ برطانیہ نے امریکہ سے ہتھیار خریدے ہوں یا فرانس نے روس سے اسلحہ لیا ہو، مغربی ممالک کے اسلحہ کی واحد مارکیٹ تیسری دنیا ہے۔
کرونا وائرس نے مسلمان ملکوں کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔ معاف کیجئے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم خود بھی ہدایت الٰہی کو پشت ڈال چکے ہیں۔ کوئی اخلاقی خرابی ایسی نہیںجس سے ہم بچے ہوئے ہوں ، ہاتھوں میں مچھر سے پکڑے ہوئے ہیں ، جہاں موقعہ ملتا ہے مسلمان بھائی کے پروار کرنے سے گریز نہیںکرتے۔ شیر سے بدکے ہوئے جنگلی گدھوں کی طرح اتحادو یکجہتی سے بھاگتے ہیں، اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کو نفرت انگیز اور غضب آلود نظروں سے دیکھتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے گزارش کی گئی ہے کہ کورونا وائرس ناانصافی کے روپ کے سوا کچھ نہیں ۔ سب سے زیادہ ناانصافیاں عدالتوںمیںہو رہی ہیں، وہ قوم اللہ تعالیٰ سے رحم کی اُمیدکسطرح کر سکتی ہے جس کا تھانیدار دو سال کے بچے کے خلاف چوری کا پرچہ کاٹ دیتا ہو۔ ہمیںاپنے اندر جھانک کر دیکھنا اور اپنی خامیوں اور برائیوں کا ائزہ لے کر انہیں دورکرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔ کورونا وائرس ایک تنبیہ ہے ، اگر ہم نہ بدلے تو عذاب الٰہی بھی آ سکتا ہے اور قیامت بھی۔ ایسی صورتمیں توبہ کا باب اور معافی کا دروازہ مکمل بند ہو جائیگا۔ واپسی کے تمام راستے مسدود ہو جائیں گے۔
کروناوائرس : گناہوں کا روپ
Apr 23, 2020