وزیراعلیٰ پنجاب کے دورہ نارووال کے ثمرات کا انتظار

صوفی محمد انور
اکثر ہم لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص بہت ذہین ہے اور فلاں شخص بہت عقلمند ہے۔ انسان بچپن سے زندگی گزارنے کے بہترین طور طریقے اور اسلوب کی جستجو میں رہتا ہے۔ عقل کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ جب بولنے کی ضرورت ہو تب بولا جائے اور جہاں خاموش رہنے کی ضرورت ہو تو خاموش رہنے ہی میں عقل مندی ہے ۔زندگی میں رشتوں ، تعلق، رویوں اور اعمال کے توازن کو عقلمندی کی علامت کہاجاسکتا ہے۔ یہ عقلمندی دوسروں کے ساتھ تعلقات میں نہیں بلکہ اپنی ذات کے اوپر بھی نافذ کی جاتی ہے یا ہوتی ہے۔ انسان اپنی ذاتی خامیوں کاکس حد تک اعتراف کرتا ہے یہ بھی عقل کی نشانی ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ غلطی کرتے ہیں اور اپنے آپ کو قصوروار نہیں ٹھہراتے، یہ بھی عقلمندی نہیں ہے اور آپ کسی غلطی کی ساری ذمہ داری خود پر ڈال لے تو یہ بھی عقلمندی نہیں۔اس کیلئے خود اپنی ذات کے اندر بھی توازن قائم رکھنا عقلمندی ہے، کون سے معاملے کو سنجیدہ لینا ہے، کس کو زیادہ سنجیدہ نہیں لینا، یہ عقل کی نشانی ہے۔گویا عقل کی بنیاد پر کامیاب زندگی گزارنے کیلئے انسان کو رشتوں، تعلقات اور حالات کو علیحدہ علیحدہ سے جائزہ لیکر فیصلے کرنے چاہئیں۔
وزیراعلی پنجاب گزشتہ دنوں نارووال تشریف لائے۔ اس دن وہ شیخوپورہ بھی تشریف لے گئے‘ لیکن میں اپنے ضلع نارووال کا ذکر کروں گا۔ نارووال میں جناب وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار صاحب پہلے بھی گئے تھے اور انہوں نے ظفروال تا شکر گڑھ سڑک تعمیر کرانے کا اعلان کیا ، وعدہ کیا یا حکم بھی دیا تھا‘ اس کا ماشاء اللہ یہ فائدہ ہوا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس علاقے میں اللہ کی مہربانی سے کرونا وائرس نے بھی آنے سے انکار کر دیا۔کیونکہ یہاںجس طرح کوئی انسان سفر نہیں کر سکتا‘ عوام بے چارے پریشان ہیں۔کرونا نے بھی التجاء کردی اے اللہ مجھے ان پریشان حال لوگوں کی طرف نہ بھیج۔ موجودہ دور میں وزیراعلیٰ عثمان بزدار صاحب نے نارروال تا شکر گڑھ کو تعمیر کرنے کاجو اعلان کیا اور اس کا حکم دیا اسے اخبار میں پڑھنے کا موقع ضرور ملا۔ وزیراعلیٰ پنجاب ماشاء اللہ خوش نصیب‘ ہیں ماں باپ کی دعائیں کام آرہی ہیں حالانکہ پنجاب کے حالات سے عوام ہر معاملے میں بہت خوش نہیں ہیں بلکہ مخالفین ، اپوزیشن نے شاید بہت کوشش کی ہے‘ لیکن وزیراعلیٰ قسمت کی دھنی ہیں۔اگر وزیراعلیٰ صاحب نے نارروال جانے کا پروگرام بنایا تھا ان کا کوئی ایڈوائزر‘ کوئی سیاسی صلاح کار بھی ہوگا۔ نارروال سے کوئی عقل مند سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والا بھی ہوگا۔ اس قسم کے تمام معزز حضرات نارروال میں موجود ہیں۔ سیاسی لوگوں میں ہار جیت بھی ہوتی رہتی ہے۔ مگر پارٹی ورکروں اورپنے ساتھیوں کو ہر حال میں اہمیت دی جاتی ہے۔ وزیراعلیٰ صاحب نارروال تشریف لائے اور انہوں نے پارٹی کے چند لوگوں کو بلایا۔ مذہبی لوگوں‘ وکلائ‘ معروف علماء حضرات یا لوکل اخبارنویسوں اور میڈیا کو ملنے کا وقت نہیں دیا ۔ ایک آزاد ممبر ایم پی اے حضرت پیر سعید الحسن شاہ پی ٹی آئی میں شامل ہوکر وزیر اوقاف پنجاب بنے تھے باقی سب الیکشن ہار گئے تھے۔ وزیراعلیٰ صاحب کو بتایا نہیں گیا کہ ضلع نارروال میں ڈپٹی کمشنر‘ ڈی پی او جیسے محنتی‘ ایماندار آفیسر ہیں۔ اگران سے وکلاء کی ٹیم ، نمائندہ دکانداروںاور چند علماء حضرات کو بلالینے کا کہا جاتا تو عوام کے اندر اچھا پیغام جاتا۔ نارروال میں پی ٹی آئی کا منتخب ممبر کوئی بھی نہیں۔ وہاں کے سرکاری آفیسروں کی مہربانی ہے کہ وہ عوام کی پرابلم (مشکلات) کو دور کرنے کی کوشش کرتے۔ وزیراعلیٰ صاحب آپ نارروال تشریف لائے ،راقم بھی اس وقت نارروال میں تھا۔ وزیراعلیٰ صاحب نارروال بہت پسماندہ ضلع ہے۔ اس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سرحدی علاقہ ہونے کی وجہ سے عوام یہاںبے پناہ مشکلات کا شکار ہیں۔ ان کی مشکلات کا ازالہ وقت کی اہم ضرورت ہے، ان کو ریلیف دلوائیں۔نارروال تا مریدکے سڑک کی مرمت‘ ظفر وال تا شکر گڑھ کی سڑک تعمیر اور نارروال تا شکر گڑھ سڑک کی تعمیر کروا دیں عوام آپ کے شکر گزار ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...