دنیا بھر میں کرونا وائرس کی وباء پھیلنے سے ہر شخص، ہر شہر، ہر ملک کو خطرہ لاحق ہے تو کرونا کے مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹرز اورطبعی عملہ توخصوصی طور پراس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔آپ کہیں گے ڈاکٹرز اور طبعی عملے کو تو عام لوگوں سے زیادہ احتیاطی تدابیر معلوم ہیںتو ان میںاس موذی مرض سے متاثر ہونے کا امکان نہیںہونا چاہیے۔بدقسمتی سے اس وقت پورے ملک میں کرونا وائرس کا شکار ہونے والے ڈاکٹروں، نرسوں اور طبی عملے کی تعداد 180 سے زائد ہوگئی ہے جن میں سے90 ڈاکٹرز ہیں۔کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر ڈاکٹر، نرسز اور نیم طبی عملہ یا تو مختلف اسپتالوں میں زیرِ علاج ہے یا پھر اپنے گھروں اور ہاسٹلز میںسیلف آئسولیشن میں ہے۔ پاکستان میں اب تک کرونا وائرس سے جہاں ہزاروںلوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں وہیں تین ڈاکٹرز بھی اس وائرس کا لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیکل پروفیشنلز کرونا کے خوف میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں اور وہ حکومت سے ماسک، حفاظتی لباس اور ضروری تحفظ کے سامان کی عدم دستیابی کا شکوہ کر رہے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ حفاظتی سامان کی عدم دستیابی کا شکوہ صرف ایک دو ہسپتالوں کے میڈیکل پروفیشنلز نہیںکررہے۔ذرائع کے مطابق میو ہسپتال ہویا سروسز ہسپتال یاپھر جنرل اور جناح ہسپتال، سب میں میڈیکل پروفیشنلز کے لیے پی پی ایز کٹس اور ماسک کی عدم دستیابی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ تمام ہسپتالوں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اپنی مدد آپ کے تحت پی پی ایزکٹس اکٹھی کرنے میں سر گرم عمل ہیں۔ مخیر حضرات سے مدد لی جارہی ہے۔اس کے باوجود تمام میڈیکل پروفیشنلز کو حفاظتی سامان مہیا کرنا ان کے لیے مشکل ہورہا ہے۔ دودن قبل ڈینٹل ہسپتال جانا ہوا۔ہسپتال کے کرونا سے بچاؤ کے انتظام دیکھ کر اچھا لگا کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے ہر عام و خاص کو پہلے ہاتھ دھونے کو کہا جاتا ہے جس کا انتظام ہسپتال کی انتظامیہ نے ہسپتال کے داخلی گیٹ پر کیا ہوا ہے۔ مریضوں کی سیٹنگ کا انتظام بھی عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق ہے۔ مگر ایک بات جس نے حیران کر دیا کہ یہاں کے ڈاکٹرز جو مریض کے منہ کے قریب جا کر ہی اس کا علاج کر سکتے ہیں ان کو ٹرشی کیئر ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پروٹیکشن کٹس اور ماسک ہی فراہم نہیں کیے گئے۔ذرائع کے مطابق یہاں کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے ذاتی کوشش سے کچھ پی پی ایز کٹس اور ماسک کا انتظام کر کے سٹاف کو فراہم کیا۔ چند ڈاکٹروں نے بتایا انہوں نے اپنے لیے معیاری پی پی ای کٹس اور ماسک خود خریدے ہیں۔ ایم ایس صاحب نے اپنی ذاتی کوشش سے حفاظتی کٹس اور ماسک کا انتظام کر کے کچھ سٹاف کو فراہم کیے ہیں۔ڈینٹل ہسپتال میں تو تمام ڈاکٹرز سمیت دیگر طبی عملے کے لیے حفاظتی کٹس اور ماسک پہننا بہت ضروری ہے کیونکہ ہم نے تو مریض کے منہ کے قریب جا کر ان کاعلاج کرنا ہے۔ ہمیں کیا پتہ کونسامریض کرونا متاثرہ ہے اور کونسا نہیں ہے۔ بہرحال یہاں کے میڈیکل پروفیشنلز کے سر پر تو کرونا سے متاثر ہونے کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔
گرینڈ ہیلتھ الائنس کے چیئرمین ڈاکٹر سلمان حسیب کا کہنا ہے کہ کرونا وائرس سے متاثر ہونے والے طبی اور نیم طبی عملے کی تعداد میں تشویشناک اضافہ ہوگیا ہے۔ محکمہ صحت فوری طور پر بین الاقوامی گائیڈ لائنز کے مطابق تمام پیرا میڈیکل سٹاف، نرسسز اور ڈاکٹرزکو پی پی ایز کٹس مہیا کر ے اورآئسولیشن وارڈز کو ہسپتالوںسے باہر منتقل کیا جائے۔ایمرجنسیوں میں کام کرنے والا سٹاف اس وقت کہیں زیادہ ایکسپوزڈ ہے اور دھڑا دھڑ وائرس کا شکار ہو رہا ہے۔خدانخواستہ کہیںتمام ہیلتھ پروفیشنلز اس وائرس کا شکار نہ ہوجائیں۔ پی پی ایز کی عدم دستابی کی وجہ سے ہسپتالوں کے آوٹ ڈور مکمل طور پر فنکشنل نہ ہو سکے۔‘‘وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کہتی ہیں کہ پرسنل پروٹیکٹیو ایکوپیمنٹس کروناوارڈز میں فراہم کی جار ہی ہیں۔
٭٭٭٭