کلرسیداں میں بھی ملک کے دیگر علاقوں کی طرح حکومتی احکامات کی روشنی میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیئے لاک ڈاؤن چل رہا ہے اسسٹنٹ کمشنر ناصر ولایت لنگڑیال،چیف آفیسر بلدیہ خالد رشید،ڈپٹی ڈی ایچ او ڈاکٹر عابد شاہ،ایس ایچ او ملک اللہ یار،سٹی ٹریفک وارڈن انسپکٹر چوہدری محمد قاسم،سب انسپکٹر عمران نواب خان،ایم ایس تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ڈاکٹر عدیم کے ساتھ اویس منظور تارڑ کی سربراہی میں راولپنڈی ویسٹ منیجمنٹ کمپنیی 1122کلرسیداں اورہماری مسلح افواج نے درپیش صورتحال سے نمٹنے کے لیئے دن رات بڑی محنت کی جس کی بدولت لوگوں کی بہت کم تعداد ہی لاک ڈاؤن کو توڑتے ہوئے باہر نکل سکی اور پھر اسے بھی بہت سارے مسائل اور مشکلات کے علاوہ بعض اوقات انہیں اس قانون شکنی پر خواری کا بھی سامنا کرنا پڑا ان لوگوں کا ہرصورت اپنے اپنے گھروں میں رہنا ان کے اور ان کے عزیزوں کے اپنے مفاد میں ہے لوگوں کی زندگیاں ہر صورت محفوظ بنانے کے لیئے کلرسیداں کے تمام اداروں نے بہت محنت کی جس پر یہ سب لائق تحسین ہیں ڈاکٹروں اور ان کے دیگر عملے کے لیئے ایک ماہ کی اضافی تنخواہ کا اعلان خوش آئیند ہے مگر انہی کی طرح دن رات محنت کر کے لاک ڈاؤن کو ممکن بنانا مریضوں کی منتقلی ان کی تدفین کرنے والوں کی تنخواہوں سے کورونا کے نام پر تنخواہوں میں کٹوتی قرین انصاف نہیں پہلے تو حکومت کو نہ صرف ان اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی اضافی تنخواہ دینی چاہیئے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں تعریفی اسناد سے بھی نوازا جاتا الٹا انہی کی تنخواہوں میں کٹوتی انتہائی تکلیف دہ امر ہے کورونا کے خدشے کے پیش نظر سینٹ اور قومی اسمبلی جیسے اداروں کے اجلاس طلب نہیں کیئے جارہے ان دونوں ایوانوں کے علاؤہ آزاد کشمیر،بلو چستان ،پنجاب،خیبر پختون خوا،سندھ اور گلگت بلتستان اسمبلیوں کے ہزاروں ارکان کے ایک ایک ماہ کی تنخواہیں کاٹ کر اس مشکل وقت کو بہتر انداز میں گزارہ جانا چاہیئے تھے مگر ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالہ ہے ان کو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا ہمیشہ کمزور کو ہی نچوڑا جاتا ہے یہی بات ہے کہ ہمارے اداروں میں لوگ مختلف مسائل کا شکار رہتے ہیں کلرسیداں کے اداروں کے ساتھ ساتھ ملحقہ آزاد کشمیر کی انتظامیہ کا ذکر نہ کرنا بھی بڑی ذیادتی کی بات ہو گی جہاں کے اسسٹنٹ کمشنر ذیشان نثار،ایس ایچ او ڈڈیال فیصل صدیق اور دیگر نے اپنے کارکنوں اور رضاکاروں کے ذریعے وہ کام کر دکھاؤ جو ممکن نہ تھا وہاں کے لاک ڈاؤن میں مہینہ سے ذیادہ وقت گزر چکا ہے دریائے جہلم کا دہانگلی پل مکمل طور پر بند ہے یہاں تک کے آبی گزر گاہوں پر بھی پہرے دار موجود ہیں جنہوں نے کشتیوں کے ذریعے بھی لوگوں کی آمدورفت مکمل طور پر بند کر رکھی ہیں یہاں سے اس پار جانے والے کوشش کے باوجود پلٹ کر واپس نہ آسکے صرف پرندوں کو دریا کر دونوں اطراف آنے جانے کی آزادی حاصل ہے ہمیں بلاشبہ اپنے ان اداروں کی کارکردگی پر فخر ہے جنہوں نے مشکل کی اس گھڑی میں لوگوں کی جانیں بچانے میں بڑا کلیدی کردار ادا کیا ۔دوسری جانب جب لاک ڈاؤن اور کورونا کے خوف کے باعث نظام زندگی بری طرح سے متاثر تھا تو عین اس وقت حکمران جماعت میں آپس میں ٹکراؤ کا عمل شروع ہو گیا ویسے تو حکمران جماعت میں رہنماؤں اور کارکنان کے درمیان اختیارات کی جنگ ہونا کوئی انہونی بات نہیں ہے مگر ہمارے ہاں گزشتہ چند ماہ سے حکمران جماعت کے اندر بے چینی اور اضطراب میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوتا رہا ذمہ داران بھی تماشہ دیکھتے رہے ویسے بھی پی ٹی آئی میں مختلف ذہن رکھنے والے مختلف جماعتوں سے آنے والوں کے اس ہجوم میں ارتعاش کا پیدہ ہونا کوئی پوشیدہ راز نہیں مگر ایک بات بڑی خوش کن ہے کہ پی ٹی آئی کے وہ کارکن جو کسی لالچ یا دباؤ کے پیش نظر نہیں بلکہ اپنے قائد عمران خان کے ویژن کے عین مطابق نئے پاکستان کی تعمیر کے لیئے اس جماعت میں شامل ہوئے تھے وہ آج بھی اسی سوچ کے ساتھ کھڑے ہیں ان کے حوصلے بلند اور وہ پرجوش ہیں مگر وہ موجودہ صورتحال پر بھی چنداں خوش نہیں تقریبا دو برس کے اقتدار میں پی ٹی آئی کچھ ڈیلیور کر سکی ہے نہ ہی اس کی کوئی درست سمت نظر آتی ہے اس کے رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی کے بارے میں خود ان کے کارکنوں میں یہ بات طے ہے کہ ان کے پاس کارکنوں کے لیئے وقت نہیں یہ ہر شام کو مختلف ٹی وی ٹاک شو میں تو دکھائی دیتے ہیں مگر زمین پر دستیاب نہیں کارکنوں کی ان سے وابستہ توقعات پوری نہیں ہو رہی ہیں دوسری جانب رکن صوبائی اسمبلی راجہ صغیر احمد ہیں یہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہو کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے انہیں تو پی ٹی آئی نے ووٹ ہی نہیں دیئے تھے ان کا اپنا حلقہ ہے ان کو ووٹ دینے والوں کی غالب اکثریت کا تعلق مسلم لیگ ن سے تھا مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے بھی ان کے ووٹر تھے اپنے ان ووٹرز کو ساتھ لے کر چلنا ان کی اصولی مجبوری ہے مگر اس وقت یہاں پی ٹی آئی میں سب اچھا نہیں ہے اور یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب حکمران جماعت کو کسی مخالف سیاسی جماعت کی جانب سے کسی قسم کے چیلنج کا سامنا نہیں تو پھر اب یہ ذمہ داری بھی پی ٹی آئی کے کچھ لوگوں نے اپنے سروں پر ڈال لی ہے ۔
گرم دم جستجو کے باعث پارٹی کی مشکلات میں اضافے کا اہتمام کیا ہے صورتحال کو بہتر بنانا اور اس کا تدارک کرنا رکن قومی اسمبلی صداقت علی عباسی کی ذمہ داری اور امتحان ہے وہیں یہ بات بھی یقینی بنانا چاہیئے کہ ذمہ داران اپنے گھر کے میلے کپڑے چوراہوں پر دھونے سے گریز کریں اوروہ لوگ جو مشکل وقت میں پی ٹی آئی کا اثاثہ تھے انہیں اب فراموش نہیں کیا جانا چاہیئے کلرسیداں تحصیل میں پی ٹی آئی کے تن مردہ میں جان ڈال کر اسے فاتح جماعت بنانا کوئی آسان کام نہیں تھا اس کے لیئے ہارون کمال ہاشمی،حافظ سہیل اشرف ملک،راجہ ساجد جاوید اور دیگر نے دن رات عرق ریزی کی جس کی بدولت یہ جماعت آج اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہے مگر یہ سب آج کہاں ہیں؟جواب بہت سادہ ہے کہ یہ سب آج بھی پی ٹی آئی کی صفوں میں موجود ہیں مگر ان کے پاس کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ یہ کارکنوں کو مطمئن کر سکیں یہ سب صورتحال پر خاموش ہیں لے دے کر ایک راجہ ساجد جاوید تھے جو ہر غیر قانونی عمل میں رکاوٹ بن جاتے تھے ان کو ایک منصوبے کے تحت نظرانداز کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے کیونکہ یہ ہر مظلوم کے ساتھی ہیں ہر بیوہ کے دکھ درد اور مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھتے ہیں ہر قبضہ مافیا کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں ان کی یہی بے باکی اور ترجمانی اختیارات کے حامل لوگوں کو چنداں پسند نہیں،وہ ان سمیت بہت ساروں کو نظرانداز کر سکتے ہیں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا مگر وہ یہ بات بھی مت بھولیں کہ اس سے ان کی وہ جماعت بھی کمزور ہوتی چلی جائے گی جو ان کی انتخابی کامیابی کی ضمانت بنی تھی اقتدار کے ایام میں خوشامدی ابن الوقت اور سیاسی مسافر ہی اقتدار میں مزے اڑاتے ہیں پارٹی کے لیئے خون پسینہ ایک کرنے والوں کو اقتدار کے ایام میں بند گلی میں دھکیل دینا تحریک انصاف کو زیب نہیں دیتا جو جماعت اپنے حقیقی کارکنوں کی تلخ گفتگو کو برداشت نہیں کرتی اس کا زیادہ وقت تک راج کرنا بھی ممکن نہیں رہتا ۔
کلرسیداں … لاک ڈاؤن کا پہیہ چل رہا ہے
Apr 23, 2020