پاکستان معرض وجود میں آیا تو ریاست کا نظام 1947کے قانون آزادی اور گورئمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کے تحت چلایا گیا ۔مقننہ ،عدلیہ اور انتظامیہ اپنے اپنے طریقہ کار کے مطابق قرار پائی ۔قائد اعظم کی وفات کے بعد کچھ وقت لیاقت علی خان کو ملا مگر ان کی شہادت کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ کئی قسم کی بیماریوں نے پاکستان کو آلیا۔تقسیم ہند کے ساتھ مسلمانوں کی ہجرت کا اندوھناک سلسلہ شروع ہو گیا ۔تاریخ کی سب سے بڑی Exodusتھی ۔بچے عورتیں اور مرد لاکھوں کی تعداد میں شہید ہوئے سب سے زیادہ تباہی مشرقی پنجاب میں ہوئی بدقسمتی سے اس میں سکھوں کا کردار انتہائی گھناؤنا تھا اور ہندو سازش نے بھی اپنا کام کیا جس نے آج تک پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور 72سال میں کئی سانحے ہوئے 1971سمیت آج کل نریندرمودی آف BJPکا سربراہ اور وزیراعظم RSSطرز پر کشمیر اور بھارت سے مسلمانوں کا خاتمہ کرنا چاہتا ہے ۔ظلم و تشدد کی نئی خوفناک داستانیں ہر روز کشمیر اور بھارت سے سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔OICنے بھی اور UAEسے بھی کچھ آوازیں ہندو مظالم کے خلاف بشمول UNOسیکرٹری جنرلAntonio Guterresمگر امریکہ یورپ روس خاموش چین ایک حد تک آواز اٹھا رہا ہے ۔انسانی حقوم کے علمبردار شاید خواب خرگوش میں ہیں دنیا کی معیشتںتو مشکل سے نکلنے کی کوشش میں ہیں ۔دیکھئے ہم کیا کرتے ہیں کیونکہ جس Visionکی ضرورت پاکستان بنتے وقت تھی اور جلد اس سے ہم دستبردار ہوگئے اور اپنے اپنے مفادات میں الجھ کر رہ گئے کیا سیاست دان کیا سول اور ملٹری بیوروکریٹ اور کیا جج سب ہی سب کچھ بھول کر اقتدار کا حصہ بن کے اور متروکہ املاک کی بندر بانٹ کا وسیع سلسلہ شروع ہو گیا ۔تاریخ گواہ ہے شاید اس شعبے میں رشوت اور بدیانتی نے جو بنیاد قائم کی اس نے دیگر برائیوں سمیت پاکستان کو Octopusکی طرح اپنی گرداب میں لے لیا ۔سیاسی جاگیریں قائم ہوگئیں سرمایہ دار نے گھیرا تنگ کر دیا سول اور فوجی بااثر لوگ نظام سیاست اور نظام عدل پر حاوی ہوگے اور آخر کار 1958کا مارشل لاء قوم کو سوغات میں ملا کرپشن کے خاتمے اور نظام کی تباہی کے نام پر…یہ بدقسمتی ہے کہ 1958سے پہلے اور بعد باقاعدہ بااثر لوگ جائیدادوں اور کاروبار میں ملوث ہوگے آہستہ آہستہ سرکاری زمینیں جو ریاست کی ملکیت تھیں ان پر ملٹری لینڈ تو کہیں سرحدوں پر الائمنٹ اور بڑے شہرسول اور ملٹری بیوروکریسی کی زد میں آنا شروع ہوگئے ۔نظام عدل کے لیے عام شہریوں کے حقوق ،آزادی رائے اور زندگی کا تحفظ مشکل بنا دیا گیا ۔آئین پاکستان 1956تک نہ بن سکا جو بنا تو دو سال بعد جنرل ایوب خان نے ختم کر دیا جسٹس منیر جنہوں نے مولوی تمیز الدین اسمبلی ختم کر دی تھی اب وہ ایوب خان کے مارشل لاء کو Salis(PLD 1958 sc533 Dosso case) Pupulai Supreme texکی نذر کر گئے ۔
1962کا آئین جب آیا تو اس میں ریاست سے اسلام کا نام اور بنیادی حقوق کا حصہ ختم کر دیا گیا جو بعد ازاں ترامیم کے ذریعے بحال ہوا یقیناً پاکستان کے جاگیردار سرمایہ دار جنرل اور جج اس کا حصہ بنے اور عوام بے چارے ہمیشہ کی طرح بے بس اور لاچار ۔کچھ کے علاوہ سیاست دانوں کی صورت حال بھی یہی زیادہ قابل تعریف نہیں رہی وہ بھی کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ بن گئے ۔ایک آئین جنرل یحییٰ خان نے دیا جو Interimتھا موصوف جس کردار کے مالک تھے کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مگر ان کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنانے میں شامل جرم کے باوجود پاکستان کے جھنڈے میں دفنایا گیا ویسے وہ ایوب خان اور اس کے آئین کو بھی ساتھ لے گئے ۔1971میں سپریم کورٹ نے عاصمہ جیلانی مقدمہ میں جو فیصلہ کیا اس میں عدلیہ نے بھی بس معذرت کا رویہ ظاہر کیا یہ بھی لکھا ۔Inter arms logis silence اور Revisitکی بھی بات کی (PLD 1972 sc 139).۔
نظام عدل قوموں کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور ایک توازن برقرار رکھتا ہے اداروں اور انکی کارکردگی کے درمیان ،لاقانونیت کا سدباب یہ سب تب ہی ممکن ہوتا ہے کہ نظام عدل میں تقرریاں میرٹ پر ہوں یعنی دیانت داری ،ذہانت اور اصولوں کی پاسبانی ،نظام عدل سے لگن اور عدل انصاف کرنے کی صلاحیت اور اہلیت۔دوسرا حصہ تقرریوں کی شفافیت اور طریقہ کار کا ہے جبکہ تیسرا اعلیٰ عدلیہ میں خاص کر ہر قسم کے تعصب اور اثر و رسوخ سے بالاتر selection۔1971کے آئین میں صوبوں کے چیف جسٹس اور پھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے تھے گورنر صاحبان بھی کردار میں شامل ہوئے ۔صدر پاکستان کی باری تو آخر میں آتی تھی ۔سرسری سا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے اعلیٰ عدلیہ میں تقرریاں ایڈوکیٹس جنرل دفاتر ،کچھ سابقہ ججوں کے چیمبر اور کسی حد تک سیاسی تعلق داریاں خاصی حد تک کارفرما رہیں اس طرح اس کا اثر جہاں نظام عدل کی کارکردگی پر پڑا وہاں کچھ متنازعہ فیصلے بھی صادر کئے گے ۔جیسے ظفر علی شاہ کیس 2000SCMRعدلیہ نے وہ بھی دیا پرویز مشرف کو جو مانگا بھی نہ تھا ۔یہ ذوالفقار علی بھٹو ،ضیاالحق ،مشرف ،نواز شریف ،زرداری بے نظیر وغیرہ میں بھی ہوا اور اس کے اثرات جاری ہیں ۔کچھ تاریخی فیصلے بھی صادر ہوئے جن میں 2007کے پرویز مشرف مارشل لاء کو غیر آئینی اور Userperقرار دیا گیا وار آخر کا ر سپیشلto benchنے مشرف کو آرٹیکل 6کے تحت آئین کا غدار قرار دیا اور سزائے موٹ سنائی ۔
18ویں آئینی ترمیم کے بعد جوڈیشل کمیشن آئین 175Aکے ذریعے داخل ہوا اور ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کے مشترکہ فیصلے بار کونسل کے ارکان کی موجودگی میں ہونا شروع ہوگے اور ساتھ ہی پارلیمانی کمیٹی ان تقرریوں پر رائے زن ہوئی مگر سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس معاملے کو ایک حد تک کمزور کر دیا ۔بدقسمتی سے مفاد پرستی ،کرپشن اور اقتدار کی حوس اپنی جگہ میرے خیال میں عمران خان کا اپنا رویہ بھی کچھ مثبت نہیں ۔ہماری سیاست میں اپوزیشن ،حکومتی پارٹی ،مارشل لاز اور اسٹیبلشمنٹ اہم رول ادا کر رہے ہیں حکومتی اور ریاستی امور میں وہ پارلیمنٹ ،انتظامیہ اور عدلیہ پر بھی اثر انداز رہے ہیں اور آج بھی رنگ ڈالنے کی کوشش ہوتی ہے کون اس سے بچ سکتا ہے اور نظام عدل کو بچا سکتا ہے ایک سوالیہ نشان ہے۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسلز بھی تقرریوں میں جہاں حصہ مانگتی رہی ہیں وہاں حصہ وصول بھی کرتی رہی اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے بدقسمتی سے۔بار ایسوسی ایشنز کے اندر اور عوام میں آنے والے ججوں کی تقرریوں پر دبی زبان میں راہے کا اظہار کر رہے ہیں ۔اس سلسلے میں ایک شہری ور سپریم کورٹ کے وکیل کی حیثیت سے بلا خوف و خطر اور مکمل اعتماد کے ساتھ یہ توقع کرتا ہوں کہ چیف جسٹس پاکستان جناب گلزاراحمد صاحب ان کے ساتھی ممبران اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جناب قاسم صاحب اور اسی طرح دیگر صوبوں ور سپریم کورٹ کے حوالے سے بھی صادر فیصلے کیے جائیں گے یہ پاکستان پر اور پاکستان کے لوگوں پر احسان ہوگا اور پاکستان کے اداروں کو مضبوط بنیادیں مہیا کرنے کا ذریعہ بھی ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ حالت جنگ اور امن میں نظام عدل ہی ریاست کے استحکام کا سبب بنتا ہے اور عوام کو لامتزلزل اعتماد مہیا کرتا ہے ریاست پر اور اس کے وجود پر ۔آئین کی بالادستی اور رول آف لاء کا یہی واحد راستہ ہے ۔امام ابو حنیفہ کی پیروی ذرا مشکل ہے مگر!
نہیں ناامید اقبال اپنی کشت و یران سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی