آئی پی پیز نےقومی خزانے کو4ہزار802ارب سےزائدکانقصان پہنچایا: رپورٹ

اسلام آباد: حکومت نے انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز(آئی پی پیز، کرائے کے بجلی گھر) کے متعلق تحقیقاتی رپورٹ جاری کر دی ہے جس کے مطابق 13سالوں میں قومی خزانےکو4ہزار802 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔

رپورٹ سابق چیئرمین ایس ای سی پی محمدعلی کی سربراہی میں قائم9 رکنی تحقیقاتی ٹیم نے تیار کی ہے جس میں آئی پی پیزکے ناجائزمنافع خوری کے ثبوت بھی پیش کیے گئے ہیں۔

رپورٹ میں گزشتہ20سال سے وزارت بجلی اورنیپراکی ناقص کارکردگی اورکوتاہیاں بھی بیان کی گئی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وزارت بجلی اور نیپرا نے آئی پی پیز کی سنگین کوتاہیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔

آئی پی پیز غلطیوں والے طریقہ کار کے تحت انٹرنل ریٹ آف ریٹرن وصول کرتی رہیں اور ان کے قرض ادائیگی کے تعین کا طریقہ کار ناقص ہے۔

کمپنیوں کے ساتھ ڈالر میں طے آئی آر آر کو روپے کی قدر میں کمی کے باعث کبھی فکس کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

آئی پی پیز نے زیادہ بجلی پیداواری ٹیرف حاصل کرنے کیلئے نیپرا کو غلط معلومات دیں۔ کمرشل آپریشنز ڈیٹ ٹیرف کے لیے غلط معلومات فراہم کی گئیں۔ 2002 پاور پالیسی والے آئی پی پیز نے فیول کی مد میں 210 ارب روپے کی اضافی وصولی کی۔ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جا چکی ہے۔

رپورٹ کے مطابق طریقہ کار کو درست نہ کیا گیا تو آئندہ یہ کمپنیاں 1ہزار 23 ارب روپے کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گی۔ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت لگنے والے پاور پلانٹس کو 105 ارب روپے کی اضافی ادائیگی کی جا چکی۔

2002 پالیسی والے پاور پلانٹس کو اوسط 4 ارب 50 کروڑ روپے سالانہ کیپیسٹی پیمنٹ کی گارنٹی ہے۔ 1994 کی پاور پالیسی کے تحت قائم 16 آئی پی پیز نے مجموعی طور پر 52 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی۔

گزشتہ 25 سالوں میں ان آئی پی پیز نے مجموعی طور پر 415 ارب روپے کا منافع حاصل کیا۔ ان کمپنیوں نے اپنی سرمایہ کاری پر 40 سے 79 فیصد منافع حاصل کیا۔ 2002 کی پاور پالیسی کے تحت 13 آئی پی پیز نے مجموعی طور پر 58 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی۔

گزشتہ 9 سالوں میں ان آئی پی پیز نے 203 ارب روپے کا منافع کمایا۔ان کمپنیوں نے سرمایہ کاری پر 87 فیصد منافع حاصل کیا۔ صرف فیول کی مد میں ان کمپنیوں نے 64 ارب 22 کروڑ روپے کا ناجائز منافع حاصل کیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں کوئلے اور شوگر مل پلانٹس بھی شامل ہیں۔ 2015 کی پاور پالیسی کے تحت کوئلے پر چلنے والے دو پلانٹس لگائے گئے۔ ایک پلانٹ نے دو سال میں سرمایہ کاری شدہ رقم کا 71 فیصد وصول کر لیا۔

دوسرے پلانٹ نے اپنی سرمایہ کاری کا 32 فیصد ایک سال میں وصول کر لیا۔ ان کمپنیوں کو سرمایہ کاری پر امریکی ڈالر میں17 فیصد کا انٹرنل ریٹ آف ریٹرن دیا گیا۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث ان کمپنیوں کی ریٹرن آن ایکویٹی 43 فیصد ہو گئی۔ کول پاور پلانٹس کو تعمیر کے دوران قرض کے سود کی مد میں 32 ارب 50 کروڑ روپے ناجائز فراہم کیے گئے۔

شوگر ملوں نے گنے کے پھوک سے بجلی پیداوار 45 فیصد ظاہر کی حالانکہ پیداوار زیادہ تھی۔ شوگر ملوں نے بجلی پیداوار کم ظاہر کر کے 6 ارب 33 کروڑ روپے کا ناجائز فائدہ اٹھایا۔

رپورٹ میں آئی پی پیز کی بلیک میلنگ اور لندن کی ثالثی عدالت میں جانے کی دھمکی روکنے کا مستند طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن