زرتشتیت،بدھ مت اور دیگر مذاہب کو اس قدر تہمتوں اور ملامتوں کا ہدف کبھی نہیں بنایا گیا جتنا کہ اسلام کو۔ عالمِ کفر آج بھی اسلام کے انقلابی کردار سے خائف ہے اور دنیائے کفر کی اتحادی قوتیں مسلمانوں کو ان کے دین سے برگشتہ کرنے، اسلام کے ماضی کے بارے میں بدگمانیاں پیدا کرنے میں سرگرم ہیں۔ مغرب میں عالمِ اسلام کے خلاف صدیوں سے ایک اضطراب پل رہا ہے۔نبی کریمﷺ نے اسلام کی جو عالمگیر دعوت دی تھی اس نے روز اول سے ہی ادیان باطلہ کی نفی کردی تھی۔اس لحاظ سے یہ امر تعجب خیز نہیں کہ دوسرے مذاہب کے کچھ علمبردار اسلام اور اہلِ اسلام کے بارے میں سخت معاندانہ جذبات رکھتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق اگر پلٹائیں تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ میدان کار زار میں ایک طویل عرصے تک مصروفِ جنگ رہنے کے باوجود اہل مغرب مسلمانوں کو نیچا نہیں دکھا سکے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب مسلمانوں میں کمزوری کے آثار نظر آنے لگے اوران میں سیاسی، معاشرتی اجتماعیت میں زوال شروع ہوا تو اہلِ مغرب نے بھی بھانپ لیا کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ بدلہ چکایا جائے۔ اس وقت ان میں اس قدر اعتماد نہ تھا کہ مسلمانوں سے براہِ راست ٹکر لیں لیکن دوسری طرف انتقامی جذبات ٹھاٹھیں مار رہے تھے۔ چنانچہ اب انہوں نے نئی حکمتِ عملی اختیار کی کہ علمی اعتبار سے قلمی جنگ کی جائے۔ بس تو پھر وہ علوم اسلامیہ پڑھنے لگ گئے۔ علم و تحقیق کے نام پر اسلام کے خلاف جھوٹے برج تعمیر کئے گئے۔ مگر دشمنان اسلام ایک پیج پر کھڑے نہ ہوسکے کیونکہ ان کی تحقیقی تحریروں میں کبھی تو خود تعارض و تضاد ہوتا ہے۔ وہ کبھی ایک موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کوئی چیز ثابت کرتے ہیں مگر دوسری جگہ اس کی نفی و تردید کر دیتے ہیں۔ یا کسی مبحث کے سلسلے میں ایک موقع پر جو رائے ظاہر کرتے ہیں اسی بحث میں دوسرے موقع پر اس سے مختلف کوئی اور خیال پیش کر دیتے ہیں۔
؎اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں آیا
تاریخ سے یہ مضمون، ہم تم کو دکھا دینگے
’’اسلام‘‘ کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا، جتنا کہ دبا دینگے
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کی جو ناگفتہ بہ صورتحال ہے وہ کسی سے مخفی نہیں۔ بالخصوص فلسطین، کشمیر،برما، شام، افغانستان، آسام میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت اور درندگی کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ نائن الیون کے بعد اس میں مزید تیزی آئی ہے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے اور ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے لاکھوں پونڈز سالانہ خرچ کیے جا رہے ہیں حتی کہ پرنٹ میڈیا سے الیکٹرانک میڈیا تک نے گستاخانہ خاکوں اور توہین آمیز رویہ اپنا کر مسلم ورلڈ کو اپنی خودساختہ جنگ کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔گستاخانہ خاکے دراصل اسلام فوبیا کی واضح مثال ہیں۔ اسلام کے خلاف لکھنے والے صحافیوں کی اکثریت اس بات کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتی کہ وہ اسلام کا مطالعہ ثقہ و مستند ذرائع کی بنیاد پر کریں۔ وہ تحقیق برائے تحقیق کے فن کو بالخصوص اسلام کے لیے فراموش کر دیتے ہیں اور انہی کے ہم مذہب و ملت میں سے کچھ لوگ اٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔
دوسری جانب مسلمانوں کی یہ بدقسمتی ہے ان کے پاس دنیا بھر میں کوئی مضبوط میڈیا یا محکم نشریاتی ادارہ نہیں ہے جس کے ذریعے ان کے ساتھ تحقیقی مناظرے کیے جا سکیں، غلط فہمی کا ازالہ کرنے کی دعوت دی جائے تاکہ اسلام کے خلاف سر گرم گروہ کی جرات نہ ہو اور باقی دنیا دیکھ لے کہ کس کا پلہ بھاری ہے۔ میں چیلنج کرتی ہوں اگر ایک بھی ایسے مستند چینل کی بنیاد رکھ دی گئی کہ اسلام کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے سے قبل اس پلیٹ فارم پر مکالمہ ہو جائے تو مسلمانوں میں شدید اضطراب کی کیفیت میں کافی حد تک کمی آئے گی۔ لیکن میرے نزدیک اہل مغرب میں سے ایک خاص طبقہ اس بات کو قبول کرنے کے لیے کبھی تیار نہیں ہو گا۔وہ مسلمانوں کی دل آزاری کے لیے اور تہذیبی لحاظ سے نیچا دکھانے کے لیے ایسے ہتھکنڈے اپناتا رہے گا۔ ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ مغربی معاشرے کو دنیا بھر میں شخصی آزادی کے لیے ایک مثالی معاشرہ قرار دیا جاتا ہے تو پھر گستاخانہ خاکوں اور ان کی اشاعت کو کیوں برداشت کیا جاتا ہے؟ میرے سوال کا جواب مریم جمیلہ کی کتاب ''Islam and Orientalism''میں مل گیا جس میں وہ لکھتی ہیں کہ ''اہل مغرب اپنی تہذیب کے بارے میں احساسِ برتری کا شکار ہیں اور کسی مذہب یا تہذیب کے ہم پلہ ہونے کے بارے میں وہ سوچنے کے لیے تیار نہیں۔‘‘