ٹی وی ’’صحافت‘‘ یقینا Ratingsکی غلام ہوچکی ہے۔ اس کی وجوہات اگرچہ سمجھی جاسکتی ہیں۔24/7نشریات چلانے کے لئے وافر سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ ان نشریات کو دیکھنے والے ٹی وی اداروں کو ان کی ’’قیمت‘‘ ادا نہیں کرتے۔اس ضمن میں جو ’’فیس‘‘ ہوتی ہے وہ کیبل آپریٹروں کو چلی جاتی ہے۔اپنی نشریات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لئے ٹی وی ادارے ان آپریٹروں کے ’’محتاج‘‘ ہوتے ہیں۔
کسی بھی ٹی وی چینل کی پہلی ترجیح یہ ہوتی ہے کہ اس کی نشریات آپ کے گھر میں موجود ٹی وی پر ’’پہلے دس نمبروں‘‘میں سے کسی ایک پر میسر ہوں۔ مسئلہ مگر یہاں بھی ختم نہیں ہوتا۔ اشتہارات Eye Ballsکی بدولت نصیب ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد بڑھانے کے لئے ایسے پروگرام تیار کرنالازمی ہے جو سنجیدہ ترین موضوعات کو بھی ’’متنازعہ‘‘بنائیں۔ اس حوالے سے نسبتاََ متشدد رائے رکھنے والے افراد ان پروگراموں میں شریک ہوں اور اپنا مؤقف درست ثابت کرنے کے لئے ’’فریق مخالف‘‘ کی بھد اُڑاتے نظر آئیں۔
ٹی وی ’’صحافت‘‘ نے معاشرے کو اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم کرنا شروع کیا تو اس رحجان کو مزید تقویت پہنچانے کے لئے انٹرنیٹ ایجاد ہوگیا۔ٹویٹر اور فیس بک کے بعد یوٹیوب بھی میدان میں آگیا۔ لوگوں کو اپنے دلوں میں نسلوں سے موجود تعصبات کو کامل ڈھٹائی سے بیان کرنے کی سہولت میسر ہوگئی۔ گزشتہ دس برسوں سے پاکستان ہی نہیں دنیا کے کئی ممالک ٹی وی ’’صحافت‘ اور سوشل میڈیا کی بدولت فروغ پائی نفرت کی زد میں آنے کے بعد کامل انتشار کا شکار ہوئے نظر آرہے ہیں۔ حکمران اشرافیہ اس رحجان کا توڑ ڈھونڈنے میں قطعاََ ناکام ہورہی ہے۔
کئی محقق بہت سوچ بچار کے بعد اعلان کرچکے ہیں کہ ہم Post Truthدور میں داخل ہوچکے ہیں۔سادہ الفاظ میں یوں کہہ لیں کہ اب ’’معروضی ’’حقائق‘ ‘نامی شے باقی نہیں رہی۔ ہر فرد اپنی پسند اور ترجیح کا ’’سچ‘‘ ڈھونڈ رہا ہے۔ ٹھوس حقیقت مگر یہ ہے کہ ’’سچ‘‘ میرے اور آپ کے ذاتی جذبات وخواہشات کا غلام نہیں ہوتا۔ اس کی تشکیل کی ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں جن میں سے اکثر ہمارے اختیار میں نہیں۔’’سچ‘‘کے تعین کی کاوش لہٰذا لازمی ہے۔
’’سچ‘‘ کی تلاش کو یقینی بنانے کے لئے گزشتہ چند مہینوں سے امریکہ اور یورپی ممالک میں انتہائی لگن سے کوشش ہورہی ہے کہ پرنٹ صحافت یا اخبار کے لئے جو اصول ومعیار کم ازکم دو صدیوں کے تجربے کے ذریعے طے ہوئے تھے ان کی ’’بحالی‘‘ کا بندوبست یقینی بنایا جائے۔ حکومتیں اس ضمن میں قائدانہ کردار ادا کریں۔
برطانیہ میں مثال کے طورپر ٹیلی وژن رکھنے والا ہرگھر وہاں کی حکومت کو اس کی ’’فیس‘‘ ادا کرتا ہے۔ٹی وی لائسنس کے نام پر جمع ہوئی رقوم کا کم ازکم 30فی صد حصہ اب ان اخبارات کو ’’زندہ‘‘ رکھنے کے لئے تقسیم ہورہا ہے جو ’’مقامی‘‘ مسائل پر توجہ مبذول رکھتے ہیں۔بہت مہارت سے گویا کوشش یہ ہورہی ہے کہ لوگوں کو سمجھایا جائے کہ ان کی روزمرہّ زندگی سے جڑے چند شہری یا بلدیاتی نوعیت کے مسائل بھی ہیں۔ ان کا حل فقط اجتماعی کاوشوں کی بدولت ہی ممکن ہے۔معاشرے کو انتشار کے بجائے یوں اشتراک کی جانب راغب کیا جارہا ہے۔
تمہید ضرورت سے زیادہ طویل ہوگئی۔ اعتراف مجھے فقط یہ کرنا تھا گزشتہ چند مہینوں سے یہ کالم لکھتے ہوئے میں بھی لاشعوری طورپر اس خواہش میں مبتلا ہوا محسوس کررہا ہوں کہ میرا کالم جب اخبار میں چھپ جائے۔ میں اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کروں تو اسے زیادہ سے زیادہLikesاور Sharesملیں۔اس خواہش سے مغلوب ہوا اکثر ان موضوعات کو زیر بحث لارہا ہوتا ہوں جنہوں نے سوشل میڈیا پر ہلچل مچائی ہوتی ہے۔یہ دریافت کرنے میں بہت دیر لگی ہے کہ کسی بھی موضوع پر سوشل میڈیا پر حاوی ہوئی ہلچل محض وقتی ہوتی ہے۔کئی حوالوں سے یہ آپ کی توجہ اہم ترین موضوعات کی جانب مبذول ہی نہیں ہونے دیتی۔فروعات میں اُلجھائے رکھتی ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں سے مثال کے طورپر حال ہی میں کالعدم ٹھہرائی ایک تنظیم کی جانب سے مختلف شہروں میں ہوئے ہنگامے ہماری توجہ پر کاملاََ حاوی رہے۔ہمارے ’’آزاد و بے باک‘‘ میڈیا نے ان ہنگاموں کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کو ’’ذمہ دار‘‘ بھی ثابت کرنا چاہا۔میڈیا کی جانب سے برتی ذمہ داری مگر کام نہیں آئی۔ سوشل میڈیا کو حکومت نے گزشتہ جمعہ کی صبح تین سے زیادہ گھنٹوں کے لئے بلاک کردیا۔ یہ پابندی بھی کارگرثابت نہ ہوئی ۔بالآخر اتوار کی صبح لاہور میں ایک ’’پولیس آپریشن‘‘ ہوا۔ ہمارا میڈیا اسے بھی نظرانداز کرتا رہا۔ ’’آپریشن‘ کے چند گھنٹے گزر جانے کے بعد مگر جب ’’ہر خبر پر‘ ‘ہمہ وقت نگاہ رکھنے والے انگڑائی لے کر بیدار ہوئے تو انہوں نے ’’جائے وقوعہ‘‘ پرجائے بغیر اپنے یوٹیوب چینلوں کے ذریعے واویلا مچانا شروع کردیا۔ حیران کن واقعہ یہ بھی ہوا کہ مذکورہ واقعہ کی بابت ’’سیاپا فروشی‘‘ بیشتر ان حق گو صحافیوں کی جانب سے ہوئی جو عموماََ یوٹیوب کے ذریعے عمران حکومت کے بیانیے کو انتہائی شدومد سے فروغ دیتے ہیں۔کئی گھنٹوں تک ان کا واویلا جاری رہا۔ لاہور میں ’’ہنگامہ‘‘ مگر چوک یتیم خانہ تک ہی محدود رہا۔ اس وسیع وعریض شہر کے بقیہ حصوں میں زندگی معمول کے مطابق رواں رہی۔ اتوار کے دن لاہور میں چوک یتیم خانے کے علاوہ دیگر حصوں میں معمول کی زندگی اس حقیقت کا واضح اظہار تھا کہ فقط سوشل میڈیا پر مچائی دہائی ہی کسی شہر میں کامل انتشار پھیلانے کا سبب نہیں ہوتی۔ ہمارے میڈیا کو مگر یہ اجازت ہی نہ ملی کہ وہ اس پہلو کو اجاگر کرسکے۔
صحافی اگر لاہور میں اتوار کے روز ہوئے واقعات کو اپنے پیشے کے بنیادی تقاصوں کے عین مطابق بیان کررہے ہوتے تو حالات اتنے بھی ’’دگرگوں‘‘ دکھائی نہ دیتے جن کا حوالہ دیتے ہوئے اتوار کی رات گیارہ بجے مولانا فضل الرحمن اور مفتی منیب صاحب الگ الگ پریس کانفرنسوں کے ذریعے حکومت کو ’’تڑی‘‘ لگاتے نظر آتے۔
رواں ہفتے کا آغازہوتے ہی پیر کی سہ پہر قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا۔وہاں موجود اپوزیشن اراکین نے دہائی مچائی کہ وزیر داخلہ انہیں تفصیل سے بتائیں کہ کالعدم تنظیم کی جانب سے کیا ہورہا ہے۔میڈیا اس حوالے سے خاموش کروادیا گیا ہے۔اس کی خاموشی خوفناک افواہوں کو جنم دے رہی ہے۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُبھرے بقراطِ عصر کو ’’ہر موقعہ کی غزل منہ زبانی ‘‘یاد ہوتی ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر تنہا بیٹھے Ratingsکی بارش برسادیا کرتے ہیں۔پیر کی سہ پہر مگر انہوں نے نہایت عاجزی سے ’’بیمار شمار‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور ایوان سے رخصت کی اجازت ملے بغیر باہر نکل گئے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے تین گھنٹے بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب فرمایا۔ یک نکاتی پیغام ان کی تقریر کا یہ تھا کہ پاکستان سے فرانس کے سفیر کی ملک بدری ممکن نہیں۔ ملک کے ’’چیف ایگزیکٹو‘‘ کی جانب سے آئے حتمی ’’پالیسی بیان‘‘ کے چند ہی گھنٹوں بعد تاہم وزیر داخلہ نے پیر کی صبح طلوع ہوتے ہی اعلان کیا کہ حال ہی میں کالعدم ٹھہرائی تنظیم سے ’’معاہدہ‘‘ ہوگیاہے۔ اس کا دیا دھرنا اب ختم ہوجائے گا۔’’کالعدم‘‘تنظیم کے اطمینان کے لئے اگرچہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہنگامی انداز میں طلب کرلیا گیا ہے۔وہاں فرانسیسی سفیر کی ’’ملک بدری کا معاملہ‘‘ زیر بحث آئے گا۔
منگل کے روز ہوئے اجلاس میں یہ معاملہ ’’زیر بحث‘‘ آگیا۔فرانس کا سفیر مگر ابھی تک ملک بدر نہیں ہوا۔دھرنے اور مظاہرے البتہ ختم ہوگئے ہیں۔ان کے اختتام کا اعلان کرنے کے لئے حال ہی میں کالعدم ٹھہرائی تنظیم کو فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا معاملہ قومی اسمبلی میں ’’زیر بحث‘‘ لاتے ہوئے ٹھوس جوازفراہم کردیا گیا۔ حکومت اور مذکورہ تنظیم کے لئے win-winہوگیا۔
صحافیانہ تجسس کو بروئے کار لائیں تو دل ودماغ یہ سوچنے کو مجبور ہوجاتے ہیں کہ رمضان المبارک کے آغاز کے عین قریب ایک ’’گرفتاری‘‘ کے ذریعے ہنگامہ آرائی اکسانے کی ’’دانستہ‘‘ کوشش تو نہیں ہوئی تھی۔دلوں میں امڈتے شک و شبے کی تصدیق یا تردیدڈھونڈنے کی مگر مجھ جیسے قلم گھسیٹ کوشش ہی نہیں کریں گے۔ ویسے بھی معاملہ ’’رفع دفع‘‘ ہوگیا ہے ۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران مگر دیگر کئی اہم معاملات پر کیا پیش رفت ہوئی ہے اس کی جانب ہماری توجہ ہی نہیں گئی۔ہم حال ہی میں کالعدم ٹھہرائی تنظیم کی ’’ہنگامہ آرائی‘‘ کی بابت قیاس آرائیوں میں مصروف نہ ہوتے تو شاید کوئٹہ میں بدھ کی رات ہوا دھماکہ ہمیں حیران وپریشان نہ کرتا۔ افغانستان میں جو لاوا اُبل رہا ہے فی الوقت ہماری نگاہوں سے قطعی اوجھل ہے۔ اس کی بابت ہماری اجتماعی بے خبری خیر کی خبر نہیں۔