مسلسل گرتا تعلیمی معیار، وجوہات و اسباب

ایک طرف کالجز کو دھڑا دھڑ یونیورسٹی کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ بی۔اے اور ایم اے کی بساط لپیٹی جا رہی ہے۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ استاد کی حیثیت رولنگ سٹون سے زیادہ نہیں جس طرف چاہیں اس کو بھیج کر تماشا دیکھا جائے۔اور اس پر تسلی نہیں۔یہ بھی دیکھا جائے
کہ چیخنے چلانے اور تکلیف کا احساس کہاں تک پہنچا !! اور اگر جواب میں دلائل سے بات کی جائے تو ریڈ کراس۔۔۔۔
 مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں
سوال یہ ہے کہ کرونا کے انتہائی ہنگامی حالات میں ٹرانسفر کی آخر ایسی کیا ضرورت پڑ گئی۔کیا  پوری دنیا میں امداد باہمی کے تحت یہ لین دین نہیں ہوتا۔کیا یونیورسٹی بنانے کا مقصد اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونا ہے ؟ کیا یونیورسٹی کی شناخت گروہ بندی ہے ؟ وہ استاد جو ایک ادارے میں محکمانہ احکامات کے تحت کام کر رہے ہیں۔اچانک ان کی تبدیلی کی خواہش کیونکر ہوئی ؟  حکومت ان اساتذہ کو جن کی ریٹائرمنٹ  میں زیادہ عرصہ نہیں۔کیوں بے چین کرنا چاہتی ہے۔کیا یہ سمجھا جائے کہ حملہ یا خطرہ کی صورت میں سب سے پہلے اپنے لوگ نکالے جاتے ہیں۔تحقیق کے معیار کو بہتر اور مستقل  رکھنے کی بجائے انتشار پھیلانا مطمح نظر ہے  ایک ہزار کے قریب اساتذہ کو  ذہنی افتادگی میں مبتلا کرنا ہی مقصد ہے۔ملک میں ایک ایسا ادارہ ہے جس کے ہاتھ نہ صرف لمبے ہیں بلکہ مضبوط بھی ہیں. اس ادارے کو ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہمیشہ سے ہی محکمہ تعلیم نظر آیا ہے. پہلے تو جبری طور پر اساتذہ کو ان کے ہوم سٹیشن سے دور دراز شہروں بلکہ دیہات میں پھینکا جاتا تھا اور اب یونیورسٹیوں سے ان تمام اساتذہ کو واپس مانگ لیا گیا ہے جو خوش اسلوبی سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ یہ اساتذہ ڈیپوٹیشن الاونس نہیں لیتے نہ ہی کسی قسم کی مراعات وصول کررہے ہیں۔ اساتذہ کو دربدر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یونیورسٹیاں اپنا بجٹ خود بنا کر ان اساتذہ کو تنخواہیں دیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو فی الفور یہ یونیورسٹیز کیسے راتوں رات ان اساتذہ کی کمی پوری کرنے کے لیے سٹاف بھرتی کریں گی. اس تمام عمل کے لیے بھی کم از کم چھ ماہ درکار ہوں گے اس دوران سینکڑوں تعلیمی پروگرامز کا کیا بنے گا؟یونیورسٹیوں پر معاشی بوجھ بڑھ جائے گا اور نتیجتاً فیسوں میں اضافہ ہو گا۔تو کیا یہ سمجھا جائے کہ پھر سے پرائیویٹ سیکٹر کو نوازنے اور سرکاری یونیورسٹیز کو نکام بنانے کی سازش ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو دوبارہ سے بھرتی کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ کرونا کی وجہ سے بچوں کا تعلیمی کیرئیر بھی تباہ ہو رہا ہے۔ پالیسی میکزز بھی اس پروگرام کو فلاح کا راستہ بنانے پر تل چکے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیم حاصل کرنے والے اب اپنے گھروں کی دیواریں چاٹیں گے اور سفید پوش طبقے کی اولادیں شاید ڈپلومے لے کر روزگار تلاش کریں گی کیوں کہ سرکاری ادارے بھی اب مہنگی تعلیم کے پرچارک ہیں۔گزشتہ حکومت جس طرح کی تعلیمی پالیسیاں بناتی رہی اس کا زہر ابھی تک ہماری رگوں میں دوڑ رہا ہے جبکہ موجودہ حکومت بھی استاد دوست نظر نہیں آتی ۔آپ محکمہ تعلیم کے لیے گریڈ بیس کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ بیوروکریسی کے لیے گریڈ بائیس کا جھولا موجود ہے اب یہ کھلا تضاد نہیں تو کیا ہے۔ مجھے شکایت اپنے محکمے سے بھی ہے جس میں کچھ ایسی کالی بھیڑیں ہیں جو میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ اسی رونے میں ایک آخری رونا اور یاد آیا کہ فروری میں سرکاری ملازمین کی طرف سے کیا جانے والا احتجاج رنگ لایا لیکن تنخواہوں سے صرف محکمہ تعلیم محروم ہے۔ وفاق نے ہمیشہ کی طرح اپنا حصہ بٹورا اور بغل میں کتابیں اڑسنے والے صوبائی ملازمین خبریں سنتے رہ گئے۔ حکومت نے بہت سے کالجز کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جو کہ خوش آئند ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی ایسا کیا خدشہ لاحق ہوا کہ اچھے بھلے کام کرتے ادارے سے بھی فورا لوگوں کو واپس بلانا بہتر سمجھا۔کیا کوئی طوفان آنے والا ہے یا آگ لگنے کا خدشہ ہے جو ڈوبتا جہاز دیکھ کر h.e.d نے اساتذہ کی واپسی کی دھمکی دی۔لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں قریبا 90 لوگوں کی واپسی کو کیا سمجھا جائے۔ایک طرف یہ ادارے کے لیے نقصان ہے اور دوسری طرف کام کرتے اساتذہ کو ذہنی پریشانی میں مبتلا کرنا ہی مطمح نظر تو نہیں۔براہ مہربانی ان اساتذہ کو کام کرنے دیا جائے اور خواتین اساتذہ کو در بدر نہ کیا جائے اس سے ان کی کارکردگی بہتر نہیں رہے گی اور ہر لمحہ ذہنی اذیت کے ساتھ کام کرنے والے اساتذہ کیا تعلیمی و تحقیقی ذمہ داری جاری رکھ سکیں گے؟ یہ مشورہ دینے والے حکومت کے دوست نہیں بلکہ دشمن ہیں۔یہ صورت بھی ہو سکتی ہے کہ سب لوگ  اپنی اپنی جگہ کام کرتے رہیں۔ نئے لوگ نہ بھیجے جائیں اور آہستہ آہستہ ریٹائر ہو کر اساتذہ عزت احترام سے ادارہ سے رخصت ہوتے جائیں۔یوں ایک ایک کر کے خالی جگہیں پر ہوتی  رہیں گی۔ وزیراعلیٰ سے درخواست ہے کہ وہ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے  یہ فیصلہ واپس لینے کے احکامات صادر کریں۔

ای پیپر دی نیشن