پاکستان کا اقتصادی نظام پھر سے جناب شوکت ترین کی صورت میںایک بینکار کے حوالے کردیاگیا۔گزشتہ پانچ دہائیوں سے پاکستان کے معاشی اور اقتصادی فیصلے ماہر معاشیات کی بجائے بینکار اور اکاؤنٹس کے شعبے سے منسلک لوگ کررہے ہیں ۔یہ انتہائی بنیادی بات ہے مگر پاکستان کی سیاسی و انتظامی قیادتیں اس کوسمجھ نہیں پارہیںکہ اکاؤنٹنٹ اور بینکار جمع تفریق تو کرسکتے ہیں مگر اقتصادی منصوبہ بندی نہیں کر سکتے۔اقتصادی منصوبہ کیلئے بہر حال معیشت کے ماہرین ہی درکار ہوتے ہیں ۔
دنیا بھر میں بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں جب اپنے ادارے کے سربراہ یا چیف آپریٹنگ آفیسر کیلئے کوئی بھی اشتہار دیتی ہیں تو اس میں خاص طور پر لکھا جاتا ہے’’ بینکار اور اکاؤنٹنٹ درخواست دینے کی زحمت نہ کریں‘‘کیونکہ بینکار اوراکاؤنٹنٹ دستیاب کھاتوں کا ہیر پھیر کرنا تو جانتے ہیں مگر انہیں فنڈز کے حصول کے فن سے آشنائی نہیں ہوتی یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں وزارت خزانہ کے دونام جن میں سے ایک کا انتخاب ذوالفقار علی بھٹو نے اور دوسرے کا انتخاب جنرل ضیاء الحق نے کیا تھا وہ دونوں ہی ماہر معاشیات تھے ۔ میری مراد ڈاکٹر مبشر حسن اور ڈاکٹر محبوب الحق سے ہے ۔ ان دونوں حضرات نے اپنے اپنے ادوار میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور پاکستان کی ستر سالہ تاریخ میں تعلیم وصحت کیلئے جتنے فنڈز ڈاکٹر مبشر حسن نے رکھے اس کی پہلے کبھی مثال نہہں ملتی ۔ ٹیکنیکل ایجوکیشن کی بنیاد رکھنے اور اس کیلئے فنڈز دینے والے بھی ڈاکٹرمبشر حسن تھے ۔جب اس فنڈزسے فنی تعلیم کے ادارے کھولے گئے تو ایک وقت یہ بھی آیا کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ویلڈنگ کورس کروانے والا ایک سرکاری ادارہ سال میں اگر تین سو ہنر مند تیار کرتا تھا تو ایک ہزار ویلڈروں کی ضرورت کے خطوط تو صرف ایک ملک روس کی جانب سے ہی پاکستان کو مل جاتے ۔فنڈز کے حصول کیلئے ڈاکٹر مبشر حسن کی تجویز کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مڈل ایسٹ سمیت دنیا بھر میں پاکستانی نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع ڈھونڈے اورگزشتہ تین دہائیوں سے پاکستان کی ہر حکومت جس آمدن پر انحصار کررہی ہے یہ وہی ترسیلاتِ زر ہے جو بیرون ملک مقیم پاکستانی تسلسل سے بھجوا رہے ہیں ۔
ڈاکٹر مبشر حسن کے ایجوکیشن اور ہیلتھ پلان کے تحت ایسی ایسی جگہوں پر سکول اور بنیادی مراکز صحت قائم ہوئے جہاں سڑکیں بھی موجود نہ تھیں اور بلڈ نگ میٹریل پہنچانا بھی مشکل ہوتا تھا پھر وقت نے ثابت کیا، راستے بھی بنے اور سکول بھی چلے اور لوگوں کو دیہی مراکز صحت سے طبی سہولیات اپنے علاقوں میں ملیں ۔یہ سلسلہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بھی چلتا رہا ۔ڈاکٹر محبوب الحق کا پانچ سالہ اقتصادی منصوبہ بہت مشہور تھا اور دنیا کے بیشتر ممالک ہمارے پانچ سالہ اقتصادی منصوبے کی نقل کرتے تھے اور کئی ممالک ایسے بھی ہیں جو معمولی ترمیم کے ساتھ پاکستان کے اقتصادی منصوبے کو لاگو کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔
بھارت کی تمام تر زراعت میں آج بھی لائل پور ماڈل چھایا ہوا ہے اور وہاں زراعت کا ایک ہی ماڈل زرعی یونیورسٹی لائلپور ( موجودہ فیصل آباد) کاتیارکردہ تھا۔ اس پر سالہا سال سے من و عن عملدرآمد ہورہا ہے جبکہ ہم وہ بدنصیب ہیں جنہوں نے ’’ ’’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘‘ کے مصداق لائل پور کا نام ہی ختم کردیا تو لائل پور ماڈل کیسے بچتا اس سے بڑھ کر کوتاہ اندیشی اور کیا ہوسکتی ہے ۔ ہم نے بدقسمتی سے چن چن کر ہر وہ کام کیا جو ہمیں نقصان اور تباہی کے راستے پر لیجاتا رہا ہے اور آج بھی لے جارہا ہے ۔
مشرف کو بھی دنیا بھر سے شوکت عزیز کی شکل میں بینکار ہی ملا اور ہمارے موجودہ وزیراعظم کا حسن انتخاب بھی ایک بینکار ہی ٹھہرا۔جو پھر بجٹ کے اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں لوگو ںکو ایسا اُلجھائے گا کہ بجٹ کی کسی کو سمجھ نہیں آئے گی۔جس پاکستان کے پانچ سالہ منصوبے دنیا بھر میں مقبول تھے آج اس کا بجٹ پانچ دنوں بعد ہی بدل جاتا ہے ۔ہماری معاشی ابتری کی صورتحال اس قدر بوسیدہ ہوچکی ہے اور حکومتی رٹ کاریٹ اس حد تک گر چکا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران ڈالر کی قیمت میں استحکام اور پھر کمی کے باوجودگاڑیوں کی قیمت میں بیس سے تیس فیصد اضافہ ہوچکا ہے اور مسلسل ہورہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں نے اپنے کالم میں اس بندر بانٹ کا ذکرکیا تھا جو نواز شریف کے دور میں پلاٹوںکی الاٹمنٹ کی شکل میں کی گئی ۔اب معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے نوائے وقت میں شائع ہونے والے کالم پر تحقیقات شروع کروا دی ہیں ۔ میں نے تو توجہ اسی جانب دلوائی تھی کہ جو بیوروکریٹ سابقہ حکمرانو ں کے چہیتے تھے حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب موجودہ حکومت میں بھی اہم ہیں وہ بھلاکیوں انکوائری ہونے دیں اور کیوں اپنے گلے میں پھندہ ڈالیں گے ۔ ویسے بھی پاکستان کی اشرافیہ اور بیورو کریسی’’ وائٹ کالر کرائم کو اپنی ذہانت تسلیم کرتی ہیں۔‘‘
چار روزقبل انتقال کرجانے والے ناصر درانی صاحب کی ایک ویڈیو کلپ بہت وائرل ہوئی ہے جس میں انہوں نے وی وی آئی پی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وی وی آئی پی تو حقیقت میں آپ کے پاس اللہ کا بھیجا ہوا وہ مظلوم ہوتا ہے جسے بد قسمتی سے ہمارا نظام دھکوں اور تذلیل کی شکل میں’’ پروٹوکول‘‘ دیتا ہے ۔ بس اس کے ہاں ’’نہ دیر ہے نہ اندھیر ہے’’ اورکورونا کی شکل میں ’’اللہ کا چھاننا‘‘ بھی تو لگ چکا ہے۔