معزز قارئین ! آج 10 رمضان ہے اور آج پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان ، اپنے اپنے انداز میں اُم اُلمومنین سیّدہ خدیجتہ اُلکبریٰ ؓکا یومِ وِصال منا رہے ہیں ۔آپؓ کی ولادت با سعادت عام الفیل سے 15 سال پہلے 555ء میں ہُوئی اور آپؓ کا سلسلہ نسب اپنے والد محترم کی طرف سے چار واسطوں کے بعد او ر والدہ محترمہ کی طرف چھٹی یا ساتویں پشت میں رسول اللہ ؐکے نسب شریف سے مل جاتا ہے ۔
’’صادق/ امین !‘‘
اعلان نبوت سے پہلے رسول اللہ ؐ کو اہلِ مکہ صادق اور امین مانتے تھے۔ آپ کے حُسن معاملات، راست بازی، صدق و دیانت اور پاکیزہ اخلاقی کا چرچا عام تھا، پھر قبیلہ قریش کی معزز ، مالدار اور عالی نسب خاتون خدیجہؓ نے جن کا لقب ’’ طاہرہ ؓ ‘‘ تھا، آپؐ کو اپنے تجارتی کاروبار میں شریک کِیا اور کئی مرتبہ اپنا سامانِ تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ وہ آپؐ کی تاجرانہ حکمت ، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے اتنی متاثر ہُوئیں کہ آپؓ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کو شادی کا پیغام بھیجا۔
’’آپؐ سے نکاح !‘‘
نکاح کی تاریخ معین پر آپؐ کے چچا حضرت ابو طالب ؓ بن حضرت عبدالمطلبؓ اور تمام رئوسائے خاندان ، جن میں حضرت حمزہ ؓبن عبدالمطلب ؓ بھی تھے ، حضرت خدیجہؓ کے مکان پر آئے ، حضرت خدیجہؓ نے بھی اپنے خاندان کے چند بزرگوں کو جمع کِیا اور حضرت ابو طالبؓ نے خطبۂ نکاح پڑھا۔ عمرو بن اسدؓ کے مشورہ سے 500 طلائی درہم مہر قرار پایا اور خدیجہ طاہرہؓ حرم نبوت ہو کر ام المومنین کے شرف سے ممتاز ہُوئیں ، اُس وقت حضرت محمدؐ پچیس سال کے تھے اور حضرت خدیجہ ؓ کی عمر چالیس برس کی تھی۔
’’اعلانِ نبوت !‘‘
نکاح کے پندرہ برس کے بعد جب آپ ؐ نے فرائض نبوت ادا کرنا چاہے تو سب سے پہلے حضرت خدیجہؓ کو یہ پیغام سُنایا۔ اِس لحاظ سے آپ ؓ پہلی مومن تھیں۔ احادیث کے مطابق ’’آپ ؐ کھانے پینے کا سامان لے کر غارِ حرا تشریف لے جاتے اور وہاں عبادت کرتے اور مراقبہ میں مصروف ہو جاتے ، پھر اللہ تعالیٰ کی طرف جبرائیل علیہ السلام بارگاہِ رسالت ؐ میں سلام لاتے اور خوشخبری دیتے ۔ ایک روز جب آپؐ جلالِ الٰہی سے لبریز گھر تشریف لائے توآپ ؐنے یہ واقعہ حضرت خدیجہ طاہرہؓ سے بیان کِیا۔ اُنہوں نے کہا کہ’’ آپؐ متردد نہ ہوں ، خُدا آپؐ کا ساتھ نہیں چھوڑے گا ، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ، بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں ، مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں!‘‘ ۔
’’ورقہ بن نوفل ! ‘‘
معزز قارئین !۔ پھر حضرت خدیجہ طاہرہ ؓ آپؐ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے ، عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے ۔ حضرت خدیجہ طاہرہؓ نے اپنے چچا زاد کو محمدؐکے واقعہ کی کیفیت بیان کی تواُنہوں نے کہا کہ ’’ یہ وہ ہی ناموس (حضرت جبرائیل علیہ السلام ) ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اُترے تھے، کاش مجھ میں اُس وقت قوت ہوتی اور میں زندہ رہتا جب آپ ؐ کی قوم ( قریش ) آپ ؐ کو شہر ( مکہ ) بدر کردے گی!‘‘۔ اِس پر حضرت محمدؐنے پوچھا کہ ’’ کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے !‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’ جی ہاں !‘‘۔ پھر چند دِن بعد ورقہ بن نوفل ؓ کا انتقال ہوگیا۔
’’ کعبہ میں نماز ! ‘‘
حضرت محمد بن اسماعیل بخاری المعروف امام بخاری اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں کہ ’’ ایک صاحب عفیف کندی سامان خریدنے کے لئے مکہ آئے اور حضرت عباس ؓبن عبداُلمطلب ؓکے گھر فروکش ہُوئے ، صبح کے وقت ایک دِن اُنہوں نے کعبہ کی طرف نظر کی تو دیکھا کہ ، نوجوان وہاں آیا اور آسمان کی طرف قبلہ رُخ کھڑا ہوگیا، پھر ایک نو عُمرجوان اُس کے داہنی طرف کھڑا ہوگیا، پھر ایک خاتون دونوں کے پیچھے کھڑ ی ہوئیں ۔ نماز پڑھ کر یہ تینوں چلے گئے تو جناب ِ عفیف نے حضرت عباسؓ سے کہا کہ ’’ کوئی عظیم اُلشان واقعہ پیش آنے والا ہے ! ‘‘۔ حضرت عباس ؓ نے جواب دِیا اور کہا کہ ’’ ہاں !۔
یہ نوجوان میرا بھتیجا ؐ محمد بن عبداللہؓ ہے اور دوسرا بھتیجا علی ؓ ابنِ ابو طالبؓ ہے اور یہ خاتون میرے بھتیجے محمدؐ کی بھتیجی! ‘‘۔
’’ملیکۃ اُلعرب / ناموس !‘‘
عربی زبان کے لفظ ’’ ناموس‘‘ کے کئی معنی ہیں ۔ ’’ حضرت جبرائیل علیہ السلام ، فرشے، احکام الٰہی، قاعدہ ، دستور ، آئین ، آوا، صدا، ندا، صاحب ِ راز، عفت، شرم، عصمت، حیا ، نیک نامی ، عزّت ، تدبیر ، شریعت خلقت سے عزّت کی اُمید رکھنا‘‘۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کو ’’ ناموسِ اکبرؑ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ احادیث کے مطابق ’’ اُم اُلمومنین سیّدہ خدیجتہ اُلکبریٰ ؓکے پاس اِتنا مال و دولت تھا کہ اُنہیں ’’ ملیکۃ اُلعرب ‘‘ ( عرب کی تاجدار رانی ) کہا جاتا تھا ۔ تواریخ میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ ملیکۃ اُلعرب کے پاس ’’ اُحد پہاڑ ‘‘ کے برابر سونا اور چاندی تھااور جسے آپؓ نے ناموسِ رسالت ؐسے عقیدت اور محبت کی خاطر ، مکہ کے لا تعداد غلاموں اور کنیزو ں کو ( اُن کے مالکان سے) آزاد کرا کے اُن کی شادیوں کا بندوبست کِیا۔
’’شعب ِ ابی طالبؓ !‘‘
مکہ کے قریب ایک پہاڑ کی گھاڑی کا نام ’’ شعبِ ابی طالبؓ تھا جہاں 7 نبوی ؐبمطابق ستمبر 615ء میں حضور ؐاور خاندان بنو ہاشم کو پناہ لینا پڑی۔ یہ ایک طرح کا قریش مکہ کی طرف سے ایک معاشرتی مقاطعہ (Social Boycott) تھاجو تین سال تک جاری رہا۔ بھوک کے دَوران بعض لوگوں کو درختوں کی جڑیں چبانا پڑتی تھیں اور پیٹ پر کھجور کے تنے یا چمڑا باندھنا پڑتا تھا۔ وہاں اُم اُلمومنین سیّدہ خدیجتہ اُلکبریؓ بھی آنحضرتؐکے ساتھ تین سال تک محصور رہیں ۔ معزز قارئین! میں ایک عام سا مسلمان ہُوں لیکن آج مَیں یہ سوچ رہا ہُوں کہ ’’ ناموسِ رسالت ؐ کے لئے سب سے پہلے اور سب سے بڑی قربانی تو شعبِ ابی طالب ؓ کے محصورین نے دی تھی۔