لاہور (اپنے نامہ نگار سے+ نوائے وقت رپورٹ) لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں مِس جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس شہباز رضوی پر مشتمل تین رکنی فل بنچ نے شہباز شریف کی آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس میں ضمانت منظور کر لی ہے۔ عدالت نے ملزم کو 50، پچاس لاکھ کے ضمانتی مچلکے داخل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ درخواست گزار کے وکیل اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ 27سال میں ایسا نہیں ہوا کہ فیصلہ اناؤنس ہونے کے بعد تبدیل ہو اور میں اب بھی اپنے الفاظ پر قائم ہوں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ خود پڑھ کر فیصلہ اپنے سائل کو بتائیں۔ نیب وکیل نے عدالت کو بتایا کہ اعظم نذیر تارڑ کی کہی گئی بات توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے جس پر اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ نیب کونسل نے بہت سخت بات کی ہے جو انہیں واپس لینی چاہئے۔ نیب وکیل نے کہا کہ میں ثابت کر سکتا ہوں کہ جملہ توہین آمیز ہے تو آپ کو اسے واپس لینا چاہئے۔ جس پر جسٹس عالیہ نیلم نے نیب وکیل کو روکتے ہوئے کہا کہ آپ صرف کیس پر بات کریں۔ نیب وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے ان سب افراد کو کال اپ نوٹسز بھجوائے سوائے حمزہ شہباز کے کوئی تفتیش میں شا مل نہیں ہوا۔ شہباز شریف منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزم ہیں۔ حمزہ شہباز، سلمان شہباز اور دیگر اہلخانہ منی لانڈرنگ میں اعانت جرم دار ہیں۔ ملزم شہباز شریف کو گرفتار ہوئے ابھی 7 ماہ ہوئے ہیں ابھی ایسے غیر معمولی حالات نہیں پیدا ہوئے جس بنیاد پر ملزم کو ضمانت دی جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا شہباز شریف نے ٹرائل کورٹ میں التواء کی استدعا کی؟۔ عدالت کو بتایا گیا کہ شہباز شریف کے وکلاء نے کئی بار ٹرائل کورٹ میں التواء کی درخواست دی۔ جس پر اعظم نذیر تارڑ نے عدالت کو بتایا کہ سوائے سینٹ الیکشن کے کوئی پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیا گیا۔ کل کا معاملہ اتنا حساس تھا مگر شہباز شریف کا پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا۔ وزیراعظم نے واضح طور پر کہا کہ شہباز شریف کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیا۔ یہ سپیکر کا فرض ہے کہ پروڈکشن آرڈر جاری کر کے قائد حزب اختلاف کو بلواتا۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 1990 میں ان کے اثاثے 2.5ملین تھے اور 1998 میں 41 ملین ہو گئے۔ ہم نے وراثت میں ملنے والے اثاثوں کو ریفرنس میں شامل نہیں کیا۔ ہم نے 2005 کے بعد کے اثاثوں کو شامل کیا جب پہلی بار ٹی ٹی ان کے اکائونٹ میں آئی۔ دوران تفتیش شہباز شریف کے بے نامی داروں کو متعدد نوٹسز جاری کیے ہم نے پوچھا کہ بتائیں کہ اثاثے کہاں سے آئے۔ حمزہ شہباز کے سوا کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ حمزہ شہباز کو 33 ملین کی ٹی ٹیز آئیں، گرفتاری کے بعد ان سے پوچھ گچھ کی۔ شہباز شریف نے 1990 میں 21 لاکھ کے اثاثے ظاہر کیے 1997 میں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب بنتے ہیں۔ 1998 میں یہ 21 لاکھ سے 1 کروڑ 48 لاکھ تک پہنچ جاتے ہیں۔ 2018 میں انکے اثاثوں کی مالیت 7 ارب 32 کروڑ تک پہنچ جاتی ہے۔ 96 ایچ ماڈل ٹائون کی پراپرٹی نصرت شہباز کے نام ہے اسکی مالیت 128 ملین سے زائد ہے۔ اس گھر کو سی ایم آفس بنایا گیا۔ جب ٹی ٹیز کی رقم آنا شروع ہوئیں اسکے بعد پراپرٹیز بننا شروع ہوئیں۔ 2005 سے پہلے انکے پاس کوئی پراپرٹی نہیں تھی۔ نشاط لاجز ڈونگا گلی کی پراپرٹی کی مالیت 57 ملین سے زائد کی ہے۔ یہ پراپرٹی نصرت شہباز کے نام پر ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ پراپرٹی نصرت شہباز کو بطور گفٹ ملی۔ جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ یہ پراپرٹی نصرت شہباز کے نام پر لی گئی۔ ایل ڈی اے جوڈیشل کالونی میں حمزہ شہباز کی پراپرٹی کی مالیت 136 ملین ہے۔ تہمینہ درانی کے نام پر 10 مرلے کا گھر لاہور اور 10 مرلے کا گھر اسلام آباد میں دو ولاز بھی تہمینہ درانی کے نام ہیں۔ 391 کنال زمین چنیوٹ میں حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے نام ہے۔ اس زمین کی مالیت 95 ملین سے زائد ہے۔ 13 انڈسٹریل یونٹ جو 2005 کے بعد بنائے گئے انکی مالیت 2 ارب 70 کروڑ ہے اس میں سے 2 ارب کے اثاثے 2008 سے 2018 میں بنائے گئے۔ یونی ٹاس، گڈ نیچر، نثار ٹریڈنگ کمپنیاں بے نامی ہیں۔ 2016 سے 2018 تک ان کمپنیوں میں 2 ارب سے زائد کی انوسٹمنٹ ہے۔ نصرت شہباز کے نام پر 299 ملین کے اثاثے ہیں اور ان کے اکائونٹ میں 26 ٹی ٹیز آئیں۔ سلمان شہباز کے اثاثے دو ارب پچیس کروڑ ہیں جن میں 150 ٹی ٹیز آئیں جن کی مالیت ایک ارب 60کروڑ بنتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جب ٹی ٹیز آنا شروع ہوئیں اس وقت سلمان شہباز کی عمر کیا تھی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ سلمان شہباز کی اس وقت عمر 23 سال تھی۔ حمزہ کے 533ملین اثاثے ہیں جن میں 133ٹی ٹیز شامل ہیں۔ رابعہ کے نام پر 58 ملین کے اثاثے ہیں اور دس ٹی ٹیز ان کے اکائونٹ میں آئیں۔ نصرت شہباز کے نام پر 299 ملین کے اثاثے ہیں اور ان کے اکاونٹ میں 26 ٹی ٹیز آئیں۔ نیب وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے پارٹی فنڈ کے لیے بیس لاکھ دیئے جو انہوں نے اپنے ملازمین کی کمپنیوں میں جمع کروائے۔ پیسے شہباز شریف کے اکائونٹ میں نہیں آئے مگر ان کے گھرانے کے افراد کے نام پر آئے جب شہباز شریف کو چاہیے ہوتے تو ان کے گھرانے کے افراد ان کی ضرورت کے مطابق رقم دے دیتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ جو ٹی ٹیز آتی تھیں ان کے ذرائع کیا تھے آخر وہ رقم کہاں سے آتی تھی جو ٹی ٹیز کے ذریعے بھجوائی گئی۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا نیب نے تفتیش کی کہ یہ رقم کیا کک بیکس کی ہے یا کرپشن کی۔ آپ کو تو یہ کرنا چاہیے تھا کہ آپ تفتیش کرتے کہ ان کے غیر قانونی ذرائع کیا تھے۔ اگر ا ن کے گھر میں آپ کے مطابق کروڑوں روپے آتے تھے تو وہ دیتا کون تھا۔ آپ کے مطابق یہ پیسہ غیر قانونی ہے تو کسی وجہ سے ہی کمایا ہو گا۔ آپ نے تفتیش کی کہ کس جگہ پر کک بیک لیے، کس جگہ کرپشن کی۔ آپ کے مطابق جو اثاثے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں وہ کیا زیر غور ہیں۔ جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ بے نامی دار ثابت کرنے کیلئے کیا اجزاء چاہئے ہوتے ہیں اور نیب نے کیا تحقیقات کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ 1996ء میں سلمان شہباز نے ٹی ٹیز وصول کیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ تو آپ سلمان شہباز کے متعلق بتا رہے ہیں، شہباز شریف سے متعلق بتائیں۔ آپ نے بتانا ہے کہ سلمان شہباز اپنے والد کے زیر کفالت تھا اور اس دوران اس نے اثاثے بنائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ نصرت شہباز نے ماڈل ٹاؤن میں پلاٹ خریدا جو انکے بیٹوں نے ٹیلی گرافک ٹرانسفر کی رقم سے بنایا۔ ماڈل ٹاؤن کے گھر کو 10 برس تک وزیراعلی کیمپ آفس قرار دیا گیا۔ ملزم شہباز شریف اپنی بیوی کے گھر میں 10 برس تک رہتا رہا۔ جس پر شہباز شریف کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف تو ابھی بھی وہیں ماڈل ٹاؤن میں اپنی اہلیہ کیساتھ رہ رہے ہیں۔ جس پر عدالت نے کہا کہ میرے خیال سے شہباز شریف تو اب جیل میں رہ رہے ہیں جس پر کمرہ عدالت میں قہقے لگ گئے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ شہباز شریف منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزم ہیں۔ حمزہ شہباز، سلمان شہباز اور دیگر اہلخانہ منی لانڈرنگ میں اعانت جرم دار ہیں۔ ملزم شہباز شریف کو گرفتار ہوئے ابھی 7 ماہ ہوئے ہیں۔ ابھی ایسے غیر معمولی حالات نہیں پیدا ہوئے جس بنیاد پر ملزم کو ضمانت دی جائے۔ عدالت سے استدعا ہے کہ ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ملزم شہباز شریف کی ضمانت منظور کر لی۔ علاوہ ازیں مریم نواز نے شہباز شریف کی درخواست ضمانت منظور ہونے پر ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ دس سال کہیں بھی ناانصافی کا سن کر پہنچ جانے والے کو آخر انصاف مل گیا۔ جتنی مرتبہ بھی شہباز شریف کو گرفتار کیا ان کا جرم صرف وفائے نواز شریف نکلا۔ شہباز شریف کا مقابلہ کرنا ہے تو خدمت میں کرو۔ جھوٹے مقدمات کے ذریعے خدمت کے نشان نہیں مٹائے جا سکتے۔ حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہیں کہ اس نے ہماری قیادت اور جماعت کے ہر فرد کو قانون‘ قوم اور ضمیر کی عدالت میں سرخرو فرمایا۔ نواز شریف، شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کارکردگی، وعدوں کی تکمیل احتساب اور امانت داری کے ہر امتحان میں کامیاب ہوئے۔ تمام سپورٹرز کارکنان عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے ہمیشہ دعاؤں محبتوں اور اپنی حمایت سے نوازا۔