اسلام آباد (رپورٹ: عبدالستار چودھری) قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستانی سفارتکار اسد مجید نے اپنی بریفنگ میں بتایا ہے کہ امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو کے ساتھ ان کی ایک ڈنر پر ملاقات ہوئی، جہاں ہونے والی گفتگو پر مبنی سائفر انہوں نے پاکستان میں وزارت خارجہ کے حکام کو بھجوا دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے وزارت خارجہ کو تجویز کیا تھا کہ امریکی عہدیدار کی اس گفتگو کے متعلق امریکہ کو ڈی مارش دیا جائے اور امریکی حکام سے پوچھا جائے کہ ڈونلڈ لونے جو کچھ بھی کہا ہے کیا یہ امریکی انتظامیہ کی سرکاری پوزیشن ہے یا اس کو عہدیدارکی ذاتی رائے سمجھا جائے لیکن سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سکیورٹی ایجنسیوں نے بھی اسی موقف کی تائید کی کہ یہ امریکی اہلکار کی ذاتی رائے تھی اور چونکہ ڈیلی گیشن سطح کی ملاقات نہیں تھی اس لئے اس کو سازش نہیں کہا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق امریکی عہدیدار کے ساتھ پاکستانی سفیر کی ہونے والی اس ملاقات میں واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کے ملٹری اتاشی سمیت دیگر عہدیدار بھی موجود تھے اور اس ملاقات کے منٹس بھی موجود تھے جن کا جائزہ لینے کے بعد سکیورٹی ایجنسیوں کے حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ مذکورہ امریکی عہدیدار کی گفتگو کوئی سازش نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس پہلو کا بھی جائزہ لیا گیا کہ امریکہ میں پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے گئے مراسلہ پر سابق حکومت کو فوری طور پر جائزہ لینے کے بعد ایکشن لینا چاہیے تھا اور انہیں امریکی سفارتخانے کو ایک مراسلہ بھیج کر اس بات کی تصدیق کرنی چاہیے تھی کہ اس مراسلے میں جو زبان استعمال کی گئی ہے کیا وہ امریکی حکومت کی ہے یا کسی ایک عہدیدار کی ذاتی رائے ہے لیکن سابق حکومت نے فوری طور پر کوئی اقدام نہیں اٹھایا اور بعدازاں اس کو سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا گیا جو کہ پاکستان کی وزارت خارجہ کے لئے مستقبل میں مشکلات بھی پیدا کر سکتا ہے۔