ملتان(توقیر بخاری سے) پاکستان میں تعلیمی نظام حکومتی پالیسیوں کے عدم تسلسل کے باعث مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ہر آنے والی حکومت تعلیمی نظام کی تبدیلی کے نام پر نئی پالیسیاں متعارف کرواتی رہی جبکہ ہر آنے والی نئی حکومت پرانی پالیسی کو ترک کرکے نئی پالیسی متعارف کروانے میں جت گئی۔ ملک میں تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ مختلف صوبے اس حوالے سے مشکلات سے دوچار ہیں. سکول کے لئے عمارتوں ، اساتذہ کی کمی اور بہت سے مسائل معیاری تعلیم کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ پورے ملک میں کل ملا کر کوئی 200 کے قریب نجی اور سرکاری یونیورسٹیاں ہیں۔ سکولوں اور کالجوں کی کمی ہے۔ 2 لاکھ پچاس ہزار بچے جو سکول سے باہر ہے انکو واپس سکولوں میں داخل کروانے کے لئے تعلیمی اداروں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔ سکولوں میں بچوں کو حد سے زیادہ کام کرنے کے بوجھ کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیمی استعداد متاثر ہوتی ہے۔ بچے کی پسند ناپسند کے بجائے والدین اپنی خواہشات کے مطابق مضمون میں بچے کو داخل کرواتے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی 62.3% ہے جو کہ غیر تسلی بخش ہے۔ سرکاری یونیورسٹیاں "سیاسی پارٹیوں کی آماج گاہ بن چکی ہیں۔ اس وقت دو کروڑ پچاس لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں جن میں 49% بچیاں ہیں۔ خواتین کی تعلیم میں ایک اور رکاوٹ "ہراسمنٹ" کا ہے۔ وہ والدین جو تمام تر مشکلات کے باوجود اپنی بچیوں کو سکول ، کالج یا یونیورسٹی تو بھیجتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں موجود ایسے سفاک چہرے انہیں کسی نہ کسی طرح سے بلیک میل اور ہراساں کرتے ہیں، جس کی وجہ سے لڑکیاں اپنی عزت کی خاطر تعلیمی اداروں کی بجائے گھر پر رہنے کو ترجیح دیتیں ہیں۔ اعلی تعلیم کے حصول میں بھی ان گنت مسائل سے دوچار ہے۔ ہمارے یہاں جامعات میں ریسرچ کے لئے سہولیات ناکافی ہیں۔ اہم فل اور پی ایچ ڈی میں ریسرچ یعنی تحقیق سب سے اہم جزو ہوتا ہے مگر کافی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے مختلف مشکلات کا سامنا ہے۔
معیار تعلیم