اشاعت برائے22 اپریل
پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
آخروہی ہونا شروع ہو گیا ہے جو مسلم لیگ ن کی حکومت میں ہوتا آیاہے ،سٹاک ایکسچینج نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے ،ایک بار پھر سعودی عرب اپنے بردار ملک پاکستان کی مدد کیلئے آن کھڑا ہوا ہے،ذرا سوچیں کیا 32 ارب ڈالر کی ممکنہ سرمایہ کاری معمولی ہے؟اگر حکومت پاکستان نے جن 25 منصوبوں کی پیشکش کی ہے ان میں سے طویل عرصے سے تاخیر کے شکار دیامر بھاشاڈیم جس پر 1.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی، معدنیات کی کانوں کو گوادر سے ملانے کیلئے 2 ارب ڈالر کےریلوے لنک کی تکمیل، پی آئی اے اور ایئر پورٹس کی نجکاری سمیت آدھے منصوبے بھی مکمل ہوگئے تو پاکستانی معیشت بحالی کے ٹریک پر سوارہوجائیگی،اس کا نقصان صرف ملک دشمنوں کو ہی ہوگا، سعودی وفد کی آمد اورایجنڈے کی خبر سن کر ہی پی ٹی آئی کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے تھے، پی ٹی آئی نے تو مکمل منصوبہ بندی کررکھی تھی کہ جس طرح چینی صدر کی آمد کو موخر کروانے کیلئے دھرنے دیئے گئےتھے ،سی پیک کو بند کروادیا گیا تھا،بالکل اسی طرح اسلام آباد اور راولپنڈی میں جلسے کی اجازت کی آڑ میں دھرنے دیکر سعودی عرب کے وفد کادورہ موخر کروادیا جائے، لیکن جب نہ جلسےاور نہ ہی دھرنے دیئے جا سکے تو شیر افضل مروت نے انتہائی مکاری سے اپنی حکومت کے خاتمے میں سعودی عرب کے ملوث ہونے کا بیان دیکر دودھ میں مینگنیں ڈالنے کا اقدام اٹھادیا جس پر اندرون اور بیرون ملک سے شدید ردعمل آیا۔ جس کے بعد حسب ڈیزائن ساری کی ساری پی ٹی آئی شیر افضل کےاس بیان سے منحرف ہوگئی اور اسے ذاتی بیان قرار دیا،
میاں نواز شریف کے ویڑن کیمطابق شہباز شریف حکومت ترقیاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، لیکن دوسری جانب حزب اختلاف کی جانب سے ون پوائنٹ ایجنڈے پر عمل جاری ہے کہ وفاقی حکومت کسی طرح سے بھی اپنءاہداف مکمل نہ کرسکے بلکہ جتنا ہوسکے اسکے منصوبوں کو متنازعہ بنایا جائے، بے یقینی کی کیفیت نہ صرف برقرار رکھی جائے بلکہ اس میں مزید اضافہ کیا جائے،اگر موجودہ وفاقی حکومت بلا تعطل اپنے ایجنڈے کیمطابق پانچ سال پورے کرگئی تو کوئی وجہ نہیں یہ ایک بار پھر کامیابی کے نئے سنگ میل عبور کرلےگی،
دوسری جانب پنجاب میں مریم نواز حکومت شہباز سپیڈ سے بھی بڑھ کر اپنے اہداف کی جانب گامزن ہے،یہاں بھی اپوزیشن پنجاب حکومت پر تنقید برائے تنقید پر عمل پیرا ہے، وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری اپوزیشن کے پروپیگنڈے کا مقابلہ جارحانہ طریقے سے کررہی ہیں لیکن بعض اوقات وہ وفاداری میں اتنا بڑھ جاتی ہیں کہ جو بیان نہیں بھی دینے والا ہوتا ہے وہ بیان بھی دے جاتی ہیں، جیسے کہ مریم نواز کے سوٹ کی قیمت پانچ چھ سو روپے ہوتی ہے،اس بونگے بیان پر سوشل میڈیا پر خوب ٹرولنگ ہوئی، اپوزیشن کے ٹرلوز نے تمام برینڈز اور انکی قیمتوں کا ٹرینڈ چلا دیا،مریم نواز کی سوشل میڈیا ٹیم اگرچہ اپنے اہداف کیمطابق فرائض سرانجام دے رہی ہے تاہم وہ اپنے ٹارگٹ پر کچھ زیادہ ہی اوور ڈوئنگ کررہی ہے،
آخر میں اپنے تلخ عوامی تجربے کے نتیجے بارے عرض ہے کہ ہم بھی کیسے مسلمان ہیں ؟ٹھیکری رکھ کر ماتھے پہ محراب بنالیتے ہیں تاکہ نمائش ہوسکے کہ ہم نمازی ہیں اور دوسروں سے برتر ہیں ،ہاتھ میں مہنگی سے مہنگی تسبیح رکھنا فخر سمجھتے ہیں ،دوسروں کو دھکا دیکر مسجد میں اگلی صف میں کھڑے ہونے کو ترجیح دیتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ریاکاری منع کرکھی ہے،پڑوسی کاغریب بچہ تعلیم سے محروم ہے کوئی اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ، مہنگی دواخرید نہ سکنے پر کوئی بیمار بستر مرگ پر آخری سانسیں گن رہا ہے جبکہ ہم ڈائننگ ٹیبل پر ڈھیروں قسم کے کھانے سجائے خوش ہورہے ہوتے ہیں، بخشش اور خوشحال زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں، یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے جتنی قوموںپر عذاب اتارے ان کی وجہ عبادتیں نہ کرناہرگزنہیں تھا بلکہ وجہ صرف اورصرف حقوق العبادکی خلاف ورزی تھی،جیسے کہ دھوکہ دینا، کم تولنا،ذمہ داریاں پوری نہ کرنا، امانت میں خیانت کرنا، والدین سے سرکشی کرنا، یتیموں کا مال کھانا، کھلم کھلا مردوں کے مردوں جنسی تعلقات قائم کرنا، بہنوں کے حق مارنا، دوسروں کی زمین و جائیداد پر قبضہ کرلینا، زنا کرنا، نکاح سے پرہیز کرنا، والدین کو بوجھ سمجھ کر گھر سے نکال دینا،ان تمام گناہ کبیرہ کی سزا کا کچھ حساب اسی دنیامیں جبکہ مکمل حساب کتاب روز قیامت کو ہوگا۔