گلوبل ویلج
مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
عالمی منظرنامے پر جو کچھ نظرآ رہا ہے یہ کوئی نیا نہیں ہے، پرانی کہانی ہے جو پھر دُہرائی جا رہی ہے۔یہ ہاتھی اور ریچھ کی جنگ ہے جو اب شروع نہیں ہوئی لیکن یہ ضرور ہے کہ اس جنگ میں چند دہائیوں کاکچھ وقفہ آیا ، جب عالمی منظرنامے کی اور ہسٹری کی بات کی جاتی ہے تو اس میں پچا س ساٹھ سال کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہوتی۔روس اور امریکہ یہ دو بڑے بلاک تھے اور ایک دوسرے کی ٹکڑ کی سپر پاور تھیں۔امریکہ کا نشان ہاتھی اور روس کا ریچھ ہے۔ امریکہ اور روس دونوں ایک دوسرے کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ امریکہ کا داﺅ چل گیا۔گورباچوف جیسے روس میں حکمران آئے تو روس تقسیم ہو کر رہ گیا۔اس کے بعد پھر پیوٹن نے روس کو مضبوط کرنے کی کوشش کی۔ اور آج دفاعی لحاظ سے روس کافی زیادہ مضبوط ہے۔ امریکہ تو بہرحال ایک سپر پاورہے ہی۔ امریکہ اور روس کے مابین ان پچاس ساٹھ سالوں میں بھی ٹھنی رہی گو کہ مقابلتاً روس کمزور تھا۔ان کی سرد جنگ اور محاذ آرائی کے دوران چین کو اپنی اکانومی کو مضبوط کرنے کاموقع مل گیا اور آج چین کی معیشت دنیا میں سب سے زیادہ مضبوط اورطاقتور ہے۔ روس اور چین پہلے بھی ایک دوسرے کے قریب تھے آج وہ مزید قریب آ گئے ہیں۔
ادھر فلسطین اور اسرائیل جنگ وہ بھی زوروں پر ہے۔ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کا قلع قمع کرنے کی کوشش کی گئی اور اسرائیل ایسی رعونت میں آیا کہ اس نے ایران پر بھی حملہ کر دیا۔ ایران کے شام میں موجود سفارت خانے پر حملے میں دو ایرانی جرنیلوں سمیت سات آٹھ ایرانی مارے گئے اور اتنے ہی شامی ملازمین بھی وہاں پر مارے گئے۔ اس کا ایران کی طرف سے حملے کی صورت میں اسرائیل سے بدلہ لیا گیا اور اسرائیل نے دنیا میں اپنی پھوں پھاں دکھانے کے لیے ایران پر حملہ کر دیا اور اب حالات ایک بڑی جنگ کی طرف جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کیونکہ ایران سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسرائیل کے اس حملے کا جواب نہ دے۔ امریکہ اسرائیل کی مکمل پشت پناہی کر رہا ہے البتہ اس کی طرف سے اسرائیل پر یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اگر اس نے ایران پر حملہ کیا تو اس کا ساتھ نہیں دیا جائے گا۔ تاہم ایران اگر اسرائیل پر حملے کرتا ہے تو اسرائیل کا دفاع ضرور کیا جائے گا۔ ایک طرف امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوا ہے دوسری طرف روس اور چین ایک پیج پر پہلے بھی تھے اور اب بھی ہیں اور کئی دیگر ممالک بھی ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں۔ ادھر ایران کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ایران پر چھیالیس سال سے سخت پابندیاں عائد ہیں لیکن ایران اندرونی طور پر کمزور ہوا ہے اور نہ ہی اس نے کبھی کمپرومائز کیا ہے۔امریکہ ہی کی چال پر ایران اور عراق میں جنگ ہوئی وہ دونوں ان بڑے طاقتور ممالک کو کمزور کرنا چاہتا تھا۔ ایران چھیالیس سال کی پابندیوں اور عراق کے ساتھ ہونے والی جنگ کے باوجود بھی کمزور نہیں ہوا بلکہ وہ اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو گیا۔اب دنیا بھر میں سب سے بہترین ڈرون ٹیکنالوجی سوسائیڈ ڈرون، موسمیاتی ڈرون اور دیگر ڈرون ایران کی طرف سے بنائے جاتے ہیں۔ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے بھی کوشاں ہے۔(اور میری مصدقہ ،سفارتی وذاتی اطلاع کے مطابق ایران دنیا میں دسویں نیوکلیئر طاقت بن چکا ہے اور کسی بھی لمحے اس کی طرف سے بس باضابطہ اعلان باقی ہے)امریکہ کبھی بھی ایسی جنگ ختم نہیں ہونے دینا چاہتا۔لگتا ہے کہ معاملہ ایک بڑی جنگ کی طرف چلا جائے گا کیونکہ امریکہ اگر جنگوں کا خاتمہ کر دیتا ہے تو وہ اپنے لا تعداد اسلحے کا کیا کرے گا۔اپنے اسلحے کی فروخت کے لیے دنیا میں جنگوں کا جاری رہنا امریکہ کے لیے ضروری ہے۔
ایران کی طرف سے جس طرح اسرائیل کو جواب دیا گیا جب کہ دیگر مسلم ممالک خاموش رہے۔ اس بار ایک ایرانی کی طرف فارسی زبان میں تبصرہ کیا گیا ہے کہ ستاون بہنوں کی غیرت کا بدلہ ایک بھائی نے لے لیا ہے۔ گویا ستاون مسلم ممالک کو عورتیں قرار دیا گیا اور ایران کو ان کا بہادر بھائی، جس نے اسرائیل پر حملہ کرکے ان بہنوں کی عزت اور غیرت بچانے کی کوشش کی ہے۔بہت سے اسلامی ممالک صرف امریکہ سے شاباش حاصل کرنے کے لیے ایسا کردار ادا کر رہے ہیں جس کو خواتین سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اردن کی طرف سے مسلم ا±مہ کے ساتھ کھلی اور صریحاً غداری کی گئی ہے۔ ایران کی طرف سے اسرائیل پر بیک وقت پانچ ممالک کے اندر سے حملہ کیا گیا۔یمن ،عراق، شام ،لبنان اور خود ایران کے اندر سے ،لیکن یہاں پہ ہوا یہ کہ اردن کی طرف سے جس طرح اسرائیل نے ایرانی ڈرون اور میزائل مارنے گرانے کی کوشش کی، اسی طرح سے اردن کے اوپر سے گزرتے ہوئے میزائل بھی اردن کی حکومت کی طرف سے کچھ گرائے گئے اور کچھ اردن کی حدود کو کراس کرکے اسرائیل میں مار کرنے پر کامیاب بھی ہو گئے۔امریکہ کے لوگ مسلمانوں کے اندر موجود ہیں، لارنس آف عریبیہ اور ہمفرے یہ آپ نے سنا ہوگا یہ سامراج کے لیے مسلمانوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرکے مسلمانوں کو کتنا زیادہ نقصان پہنچا چکے ہیں۔ہمفرے کی طرف سے جاسوسی اور گھناوے کردار کے باعث عثمانی سلطنت کو تباہ و برباد کرکے ٹکرے ٹکڑے کرکے رکھ دیا گیا تھااور لارنس آف عریبیہ کا بھی یہی کردار رہا ہے، آج وہی کردار اردن کے شاہ عبداللہ ادا کر رہے ہیں۔ شاہ عبداللہ کی اہلیہ کا تعلق امریکہ سے ہے، اسی طرح سے شاہ عبداللہ کی والدہ شاہ حسین کی ملکہ ان کا تعلق بھی امریکہ سے تھا تو یوں سمجھ لیں کہ آج ایک بار پھر امریکہ کے سامراج کے لارنس آف عریبیہ اور ہمفرے نئی شکل میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی کا سبب بن رہے ہیں۔
نوائے وقت کے معزز قارئین!یقینا یہ بات جانتے ہوں گے کہ ”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“مسلمانوں کو تاریخ میں بھاری شکستیں ہمیشہ اپنوں کے ہاتھوں اٹھانی پڑیں۔وہ چاہے سلطان ٹیپو ہو یا نواب سراج الدولہ ہو یا پھر عثمانی خلافت کے فرمانروا ہوں۔مگر عجیب بات ہے کہ سامراج اور صیہونی قوتوں کو ہمیشہ مسلمانوں کے اندر سے ہی ایسے غدارِ وطن ،غدارِ ملّت اور غدارِ قوم مل جاتے رہے ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر آج بھی اپنی دھرتی کا سوداکرنے کے لیے تیار بیٹھیں ہیں۔ہم بحیثیت مسلمان جب تک اپنی صفوں میں سے ان ننگے ملت غداروں کا صفایا نہیں کرتے ،تب تک سامراجی قوتیں ہماری آزادی اور بقاکے لیے خطرات پیدا کرتی رہیں گی۔قارئین آیئے دعا کریں اور ابتدا کریں کہ ہمارے اپنے گھر سے بلکہ اپنے آپ سے ابتدا کریں کہ میں ملت اور قوم سے کتنا مخلص ہوں؟