نسیم الحق زاہدی
یہودی روایت کے مطابق کہ ایک بالکل سرخ گائے کی راکھ ان کو پاکیزگی کے لیے درکار ہے۔کیونکہ (ان کا اعتقاد ہے کہ میت کو چھونے والا بلکہ قبرستان میں بھی داخل ہونے والا ہر یہودی نجس ہے اور یہ نجاست نسل در نسل چلتی رہتی ہے۔اس طرح سارے یہودی نجس ہیں۔صرف سرخ رنگ کی گائے کی راکھ ان کو پاک کرسکتی ہے۔اس نجاست کی وجہ سے مذہبی یہودی مسجد اقصیٰ کے احاطہ میں جانے کو گناہ سمجھتے ہیں کیونکہ مسجد اقصیٰ مقدس یہودی معبد کی جگہ پر قائم ہے۔نجاست دور ہونے کے بعد یہودی مسجد اقصی کے اندر جاسکتے ہیں۔)جس کے بعد مسجد اقصیٰ کے مقام پر تیسرا ہیکل سلیمانی (یہودی عبادت گاہ) تعمیر کرنے کی شرط پوری ہوجائے گی اور اس کے بعد خیر وشر کا آخری معرکہ ہوگا اور دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔اسرائیل حضرت یعقوبؑ کا لقب ہے۔ان کے بارہ بیٹے تھے اور ان سے جو نسل چلی وہ بنی اسرائیل ہے۔ان ہی میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔اللہ نے موسیٰؑ پر تورات نازل فرمائی،پھر یہ ایک بہت بڑی امت بنے۔قرآن کریم کے نزول کے وقت تک ان پر عروج وزوال کے چار ادوار آچکے تھے۔دومرتبہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہوئیں اور انہیں عروج نصیب ہوا اور دومرتبہ دنیا پرستی اور احکامات الٰہی کو فراموش کردینے کے جرم کی سزا میں ان پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے کوڑے برسے۔اس کا ذکر سور? بنی اسرائیل کے پہلے رکوع میں موجود ہے۔یہودیوں کا”معبداول“جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہیکل سلیمانی بنایا تھا،اسے بخت نصر نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے بھی چھ سو برس پہلے گرادیا تھا۔انہوں نے ہیکل سلیمانی کو دوبارہ تعمیر کیا تھا جو ”معبدثانی“کہلاتا تھا،70عیسوی میں نبی رحمت ? کی ولادت سے پانچ سو سال پہلے رومیوں نے حملہ کرکے یروشلم کو تباہ وبرباد کردیا،یہودیوں کا قتل عام کیا اور ”معبدثانی“کو مسمار کردیا صرف ایک دیوار گریہ باقی ہے جس کے پاس جاکر یہودی ماتم اور گریہ زاری کرتے ہیں۔اب یہودی تیسرا ہیکل سلیمانی Temple Third بنانے پر تلے ہوئے ہیں،اس کے نقشے بھی بن چکے ہیں اور ابتدائی خاکہ بھی تیار ہوچکا ہے۔یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ جب تک ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہیں ہوتی،اس وقت تک مسیحا اس دنیا میں تشریف نہیں لائے گا،ہیکل سلیمانی کی یہ تیسری تعمیر ہوگی جو یہودیوں کے نزدیک آخری ہے۔انسانی اور مالی وسائل کی بہتات کے باوجود اس کی تعمیر میں دورکاٹیں ہیں جس کی وجہ سے یہ اب تک تعمیر نہیں ہوسکا۔پہلی رکاوٹ،یہودیوں کو گناہوں سے پاک کرنے والی قربانی کی شرط ہے جس کے لیے قدیم یہودی روایات کے مطابق ایک ایسی سرخ گائے درکار ہے کہ جس کا ایک بال بھی کسی اور رنگ حتیٰ کہ بھورا بھی نہ ہو۔مزید بائبل کی کتب الاعداد (بک آف نمبرز) کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں بنی اسرائیل کو حکم دیا گیا ہے کہ ”ایک ایسی سرخ گائے کی قربانی پیش کی جائے جو بے عیب ہو،اس میں کوئی داغ نہ ہو،اور جسے کبھی ہل میں نہ جوتا گیا گیا ہو۔“صرف ایسی ہی قربانی کے بعد ہیکل دوبارہ تعمیر ہوسکے گا۔دوسری رکاوٹ،یہودیوں کے نزدیک ہیکل سلیمانی کو جس مقام پر تعمیرکیا جانا ہے وہ عین وہی مقام ہے جہاں اس وقت مسجد اقصیٰ موجود ہے۔ہیکل سلیمانی کی تعمیر کا صاف اور سیدھا مطلب مسلمانوں کا قبلہ اول کی شہادت ہے۔مسجد اقصیٰ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں کا بھی مقدس ترین مقام ہے۔اس وجہ سے یہودیوں کواس کی شہادت کے لیے ایک ایسا ماحول بنانا پڑرہا ہے۔گذشتہ برس اسرائیل میں ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے قائم خصوصی ادارے دی ٹیمپل انسٹیٹیوٹ کی جانب سے یہ اعلان کیا تھا کہ مکمل طور پر سرخ گائے کی پیدائش اسرائیل میں ہوچکی ہے،جس کے ساتھ دنیا کے اختتام کا باب شروع ہوگیا۔گذشتہ ماہ 27مارچ کو فلسطینی شہر نابلوس کے نزدیک ایک غیر قانونی اسرائیلی بستی سلو کے مضافات میں ٹیمپل انسٹیٹیوٹ کے زیراہتمام ایک کانفرنس کاانعقاد کیا گیا،جس میں چند درجن یہودیوں نے شرکت کی۔ جس میں 2022کو امریکی ریاست ٹیکساس سے لائی جانے والی سرخ گائے کی خصوصی نگہداشت کے حوالے تبادلہ خیال کیا گیا۔فلسطین کے مسلمان ایک طویل عرصے سے یہودکی چیرہ دستیوں کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔یہود نے کئی عشروں کے دوران ایک منظم سازش کے تحت دنیا بھر کے علاقوں سے نقل مکانی کرکے اسرائیل میں اپنی سیاسی اور عددی قوت کو مرتکز کیا ہے۔مسلمانوں کے غلبے کو برقرار رکھنے کے لیے 1967ء میں کئی عرب ممالک نے اسرائیل ناجائز قابض یہودیوں کے ساتھ جنگ کی۔مگر افسوس کہ اس جنگ میں مسلمانوں کو اتحاد اور داخلی کمزوریوں کی وجہ سے شکست کا سامنا کرنا پڑا،اس طرح اسرائیل نے جنگی نقطہ نظر سے بہت اہم علاقے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرلیا۔سارا صحرائے سینا،غزہ کی پٹی،ویسٹ بینک اسرائیل کے قبضے میں چلی گئیں۔بیت المقدس تاریخ میں 2600سال بعد یہودی تسلط میں چلا گیا،جہاں اب تک یہ ارض فلسطین پر مسلسل مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں۔اب یہودی ان سرخ گائے کی قربانی کے لیے بالکل تیار ہیں کیونکہ گائے کی عمر تین سال سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور ممکن ہے کہ کسی بھی وقت یہ قربانی کردی جائے۔پچھلے چھ مہینوں میں فلسطینیوں کے ساتھ جو کچھ ہوگیا،اور 52مسلمان ریاستیں سوائے مذمت اور سفارتکاری کے کچھ نہ کرسکیں،حتیٰ کہ مسلمانوں سے یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ تک نہ ہوسکا،معمولی قربانیاں نہ دی جاسکیں،جہاد تو بہت دور کی بات ہے۔انہوں نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمانوں میں کتنا دم خم ہے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اب کوئی سلطان صلاح الدین ایوبی نہیں آنے والا مگر اس کے باوجود بھی یہودی خوف زدہ ہیں اسی لیے وہ جنگ کے بہانے مسلمانوں کی نسل کشی کررہے ہیں ان کو علم ہے کہ اگر فلسطین کا ایک مسلمان بچہ بھی زندہ رہا تو وہ کسی صورت اپنے ناپاک عزائم میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔میں فلسطین کے مسلمانوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اتنے سخت حالات میں بھی ان کے حوصلے بلند ہیں،ان کے جذبات سرد نہیں پڑے۔آج مسلمانوں کو اپنے قبلہ اول کی حفاظت کے لیے اٹھ کھڑا ہونا چاہیے مٹھی بھر یہودیوں کے خلاف جہاد کرنا چاہیے اور اپنے مظلوم فلسطینیوں کا ساتھ دینا چاہیے،اللہ تعالیٰ اس وقت دیکھ رہا ہے کہ کون مظلوموں کا ساتھ دے رہا ہے کون نہیں۔ورنہ وہ ابابیلوں سے ہاتھیوں کو مروانے پر قادر ہے۔اگر اب بھی مسلمان متحد نہ ہوئے تو خدانخواستہ مسجد اقصیٰ کو شہید کردیا جائے گا،زیادہ سے زیادہ شور برپا ہوگا۔جلوس نکلیں گے اور بس۔ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے ساتھ ہی قیامت کی بڑی نشانیاں شروع ہوجائیں گی۔اور پھر ایک کے بعد ایک واقعات رونما ہوگئے۔ان سب باتوں کی روشنی میں اگر غزہ کی موجودہ جنگ کو دیکھیں تو بہت سارے حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں۔برحال اس وقت مسلمان ممالک کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔