ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
مریم نواز نے ےہ کہہ کر حیران کر دےا کہ نئی سوچ، جدت طرازی اور تخلیقی اُپچ سے نئے آئیڈیاز سامنے آئیں گے۔ کچھ نیا کرنے کی صلاحیت انسانوں کو دیا جانے والا قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔ مریم نواز نے ےہ بھی کہا کہ زندگی کے تمام پہلوﺅں میں جدت اورقدرت کو اپنائیں ۔ مریم نواز نے مزید کہا پنجاب حکومت ملکی ترقی کے لیے نوجوانوں کی اختر ا عی سوچ کا خیر مقدم اور تعاون کرے گی۔ ےہ بات انتہائی قا بل توجہ ہے کہ کسی وزےر اعلیٰ کو ےہ بات تو سمجھ آئی ورنہ پاکستان مےں جدت طرازی، تخلیقی سوچ، نئے آئیڈےاز اور انفرادیت کے حامل افراد کو ہمیشہ دیوار سے لگا دیا جاتا ہے۔ تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والوں کی پاکستان میں اِس قدر حو صلہ شکنی کی جاتی ہے کہ ایک تو میرٹ کا قتلِ عام کیا جاتا ہے۔ اقربا پروری اور سفا رش نے تمام ادا روں کو تباہ کر دیا ہے۔ ہر اداے میں ایک نکمّا، کاہل، کام چور، ہڈ حرام بیٹھا ہے جو چا ہتا ہے کہ اُسے کچھ نہ کرنا پڑے۔ نیا ےا اچھا کام تو کیا کرنا ہے۔ ایسے لوگ ہر وقت دوسروں کو چُونا لگا نے اور آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ ہما را تعلیمی نظام اس کی سب سے بڑی مثال ہے جہاں ایسے ایسے جہلاءمہان استاد بنے بیٹھے ہیں جو تیس چا لیس سال پرانا سلیبس گا ئیڈز کی مدد سے اُلٹا سیدھا پڑ ھاتے ہیں۔ وہ ناک سے آگے دیکھنے اور رٹے رٹے سلیبس سے آگے پڑھانے سے قاصر ہو تے ہےں۔ کالجوں اور ےونیورسٹیوں میں حالات اس سے بھی زیادہ گھمبیر ہیں۔ مقا لوں تک میں مکھی پہ مکھی ماری جاتی ہے بلکہ کو فضول سے آدمی پر پی ایچ ڈی یا ایم فل کرتے ہیں تو وُہی آدمی یا عورت خو د اپنے اوپرپورا مقالہ لکھ کر دے دیتے ہیں بلکہ کتا بی صورت میں چھپوا کر سب کو تحفتاً اورفی سبیل اللہ کتابیںبانٹتے ہیں۔ اس طرح طا لبعلم کو بھی جان نہیں مارنی پڑتی۔ اُس کو کئی مقا مات پر پیسوں کی بھی بچت ہو جاتی ہے۔ نگران کو بھی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ شہرت کے بھوکے جس آدمی پر مقالہ لکھا جاتا ہے۔ اُس کی جہاں بلّے بلّے ہو جاتی ہے۔ وہاں اُسے معا شرے میں ایک مقام بھی میسر آ جاتا ہے بلکہ اُس کا گریڈ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا حقیقت میں نہ کوئی ادبی کام ہو تا اور نہ مقام ہوتا۔ ایچ ای سی اےک ناکام ادارہ ہے جس نے اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں کیا لیکن اربوں روپیہ کھا جاتا ہے۔ پاکستان کی اکثر یونیورسٹیوں میں ایم فل، پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ریوڑیوں کی طرح بانٹی جا رہی ہیں جبکہ ےہ ڈگریاں حا صل کرنے والے ایک گریجویٹ جتنا علم نہیں رکھتے۔ یہی حالت محکمہ تعلیم کی ہے جہاں دو نمبری بھی نہیں، دس نمبری سے کام چلائے جاتے ہیں۔ محکمہ صحت میں اس قدر گھپلے، کرپشن اور جعلسازیاں ہیں کہ لو گ اپنی زندگیوں ، اعضاءاور صحت سے ہاتھ دُھو رہے ہیں۔ اگر اسکے بعد ہم اپنی سیاست اور طرزِ حکمرانی کا جا ئزہ لیں تو مایوسی، ناکامی اورنامرادی کے سوِا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ سےاست میں سب سے پہلے ایمان اور ضمیر گروی رکھنا پڑتا ہے۔ سیاست کی ابتداءہی جھوٹ اور لن ترانیوں سے ہوتی ہے۔ سیاست تو عوام کی خدمت کرنے کو کہتے ہیں لےکن تمام سیاستدانوں کی ڈگریاں چیک کریں تو صرف پانچ فیصد کے پاس اعلیٰ ڈگریاںہیں۔ بےس فیصد گریجویٹس ہیں اور باقی کی 75فیصد پارلیمنٹ جعلی ڈگریوں، انٹر میٹرک تھرڈ ڈویژن یا انڈر میٹرک ہیں۔ جب اسمبلی ایسے جعلسازوں سے بھری ہو گی اور ہمارے سروں پر جہلاءمسلط ہونگے تو وہ ہم جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں سے ڈریں گے۔ اُنکی قا بلیت سے خوف کھا ئیں گے۔ اُنکی ذہانت سے گھبرائیں گے۔ اسی لیے تمام سیاسی جما عتےں قابل اور اہل لوگوں کو دور رکھتی ہیں لےکن جو لوگ فنِ چا پلوسی میں طا ق ہوتے ہیں۔ خو شامدکے رسیا ہوتے ہیں۔ انکی ہمیشہ لا ٹری نکلی ہو تی ہے۔ ذہین قابل، تعلیمےافتہ آدمی میں غیرت حمیت اور انا خو دداری ہو تی ہے۔ وہ کبھی چا پلوسی خو شامد نہیں کرتا لیکن ہر وہ شخض جو نالائق نکما ناکارہ ہو تا ہے۔ وہ خو شامد اور چا پلوسی سے اپنے عیب خا میاں کمزوریاں چُھپاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران وزیر مشیر اور اعلیٰ عہدیدار چا پلوس آدمی کو موا قع دیتے ہیں تا کہ اُنکے بھی عیب ڈکھے رہیں اور اندھوں میں کانا راجہ کی مثال بھی قا ئم رہے۔ پاکستان دنیا کا واحد بد قسمت ملک ہے جو ہر چےز پر ٹیکس دیا جاتا ہے لیکن عوام کو کوئی سہولت نہیں ملتی۔ حد تو یہ ہے کہ اس ملک میں کسی کو اُس کی محنت اور کام کا معا وضہ نہیں دیا جاتا۔ پنجاب کی وزیر اعلیٰ کو معلوم ہونا چا ہیے کہ پاکستان دنےا کا واحد ملک ہے جہاں سب سے زےادہ ٹیلنٹ کی ناقدری ہوتی ہے۔ اچھا سوچنے ، نیا آئیڈیا دینے اورتخلیقی عمل سے گزرنے والے کی اتنی حق تلفی کی جاتی ہے کہ حد نہیں۔ پاکستان میں سارا کاروبار بکواسیات پر چلتا ہے۔ کام پر کسی کا دھیان نہیں ہوتا۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں زےادہ تر ©© ”بکواس“چلتی ہے جبکہ ©”کام“ کی کو ئی ویلیو نہیں ہوتی۔ اب روٹی پر ہی اپنے حکمنامے پر غور کر لیں۔ آٹھ دس دن ہو گئے مگر روٹی سولہ تو کیا اٹھارہ روپے کی بھی نہیں ملتی۔ اس سے لوگوں کو ایک میسج گیا کہ مریم نواز ایک کمزور وزیر اعلیٰ ہیںجو روٹی کی قیمتیں نانبا ئیوں پر لاگو نہیں کروا سکیں۔ نانبائی معا شرے کا جا ہل ترین طبقہ ہے لیکن انہوں نے آپکے حکم کو ہوا میں اُڑا دیا۔ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ نے بھی اپنے گرد خوشامدیوں کا ٹولہ جمع کر رکھا ہے جو ہر وقت یہ بتا تا ہے کہ آپکا سوٹ 800سو روپے کا ہے اور آپ نے صرف لپ سٹک لگا ئی ہوتی ہے۔ مطلب چا پلوسی کی بھی ایک حد ہو تی ہے۔ لوگوں نے آپکے ملبوسات، بیگ جوتے اور میک اپ نہیں دیکھنا بلکہ آپکی کارکردگی دیکھنی ہے جو آپکا نام بنا سکتی ہے ےا آپکی ٹیم آپکو کامیاب بنا سکتی ہے مثلاً آپکی ٹیم میں کوئی حقےقتاًپڑھا لکھا، صا حب علم ہو تا تو کہتا کہ ادیبوں شا عروں دانشوروں کو بلائیں تا کہ اُن سے نئے آئیڈیا ز لیے جائیں۔ بد قستمی سے اگر لوگوں کو تو فیق ہو بھی گئی تو وہی کا سئہ لےس، چا پلوس،مکھن باز، جوتے پالش کرنے والے ادیب شا عر دا نشور بُلا لیے جائیں گے جو کو ئی آئےڈیا تو نہیں دےنگے۔ بس آپکی تعریفوں کے پُل ڈھا دیں گے۔ یاد رکھیں!! ایسے لوگ کام کی باتیں کم اور بکواس زیادہ کرتے ہیں۔ پاکستان مےں پنجاب وا حد صوبہ ہے جہاں کے لوگ انتہائی زرخیز، ذہین، زیرک اوراعلیٰ خیالات کے مالک ہیں بشرطیکہ وہ جینوین لوگ ہوں۔ پڑھے لکھے ، مد بر اور سلجھے ہو ئے مہذب شا ئستہ لوگوں سے روابط بڑ ھائیںتب آپکی کار کردگی بڑھے گی۔ اگر تخلیقی اور نئی کارآمد سوچ نظر یے رکھنے وا لوں سے دوستی کریں گی تو آپکو پذیرائی ملے گی۔ مےک اپ، قےمتی مبلوسات، پروٹوکول اور خالی مخولی بیا نات سے آپکی شخصیت کی تعمیر و ترقی نہیں ہو گی۔ اس ملک کے غریب عوام کو بھاشن سے زیادہ را شن کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی تباہی بربادی کی وجہ کام نہ کرنا، بس باتیں ملانا ہے۔