(عالمی یومِ کتب پر خصوصی تحریر) دروغ بر گردن راوی، معروف شاعر، استاد اور بچوں کے لئے لافانی کردار ”ٹوٹ بٹوٹ“ تخلیق کرنے والے صوفی تبسم کے حوالے سے ایک قصہ بہت مشہور رہا ہے۔ لوگوں نے زیب داستان کے لئے کتنا بڑھایا ہے اس کا تعین تو اب ممکن نہیں بہرحال ہے بہت دلچسپ۔
صوفی تبسم کے بڑے بھائی کی اندرون شہر لاہور میں نان شاپ تھی۔ ایک روز کسی نیم پڑھے لکھے گاہک نے کہہ دیا کہ جناب ....!صوفی صاحب تو بہت بڑے شاعر اور پروفیسر ہیں، اور ایک آپ ہیں کہ نانبائی بن بیٹھے، کچھ آپ نے بھی پڑھ لکھ لیا ہوتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ موصوف نے ارشاد فرمایا: ”کیا بتائیں، آبائی شہر میں صوفی نان لگاتا تھا اور میں پروفیسر تھا۔ لاہور آکر سب الٹ پلٹ ہو گیا۔
ہم سب کی زندگیوں میں بھی چاہتے نہ چاہتے اس الٹ پھیر کا بہت بڑا حصہ شامل ہے۔ عام آدمی تو چھوڑیئے ذرا بڑے بڑے اداروں کو دیکھ لیں، جہاں پالیسی سازی اور ترقی کے بڑے بڑے منصوبوں پر عمل ہونا چاہئے وہاں راشن بانٹے جا رہے ہیں، لنگر خانے کھولے جا رہے ہیں۔ علم کی پیاس بجھانے کے ذمہ دار مراکز خاک بازی کا سبق دینے میں مگن ہیں۔ راشن دینے کی پلاننگ کرنے والے اداروں میں ناصر کاظمی کی اداسی کی طرح بھوک بال کھولے سو رہی ہے۔ سنگ و خشت تو ہر جگہ مقید کر رکھے ہیں اور سگ آزاد گھوم رہے ہیں۔ نہ صرف گھوم رہے ہیں بلکہ کاٹ اور بھنبھوڑ رہے ہیں۔
ایک بڑی یونیورسٹی میں زندگی میں کتابوں کی اہمیت پر بات ہو رہی تھی۔ ایک طالبہ نے سوال پوچھا کہ کتابوں کی دنیا اور حقیقی دنیا میں اتنا فرق کیوں ہے؟ اس معصوم سے سوال پر تھوڑی حیرانی تو ہوئی لیکن یہ سوچ کر ہم نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ جس معاشرتی زوال کا ہم شکار ہیں وہاں بچے ایسے سوال نہیں کرینگے تو پھر کیا کرینگے؟؟؟ چنانچہ عرض کیا کہ کتاب کی دنیا ہی حقیقی دنیا ہے۔ جن معاشروں میں عملی طور پر کتاب سے دوری اختیار کی گئی وہ آسودگی، علم اور ترقی سے دور ہو گئے۔ وہاں کے پتوں میں چھپ چھپ کر اور کچھ نمایاں ہو کر خزاں ہی روتی رہی۔ ان کے لئے معاشی ترقی ایک خواب بن کر رہ گئی اور جہالت سے چھٹکارا ایک ایسی خواہش بن گئی جس کے مقدر میں کوئی تکمیل نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس جن معاشروں نے کتاب کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا، گھر سے نکلتے، بس سٹالوں پر، ٹرینوں، مسافر گاڑیوں میں کتابوں کو دوست بنا لیا وہ ترقی کی معراج پا گئے۔
لیجئے: ایک قصہ سن لیں:.... کہتے ہیں پاکستانی طالب علم بیرسٹر بننے کے لئے لندن گئے۔ خوب دل لگا کر پڑھائی کی اور اپنی منزل پا لی۔ بیرسٹری کرنے کے بعد سوچا اب جی بھر کر لندن کی سیر ہی ہو جائے چنانچہ ایک بس میں سوار ہو گئے۔ سفید بالوں والے ایک بزرگ کے ساتھ والی سیٹ خالی دیکھ کر براجمان ہو گئے۔ علیک سلیک کر کے بتایا کہ تعلیم تو مکمل کر لی اب سوچا آوارہ گردی کر لوں۔ پھر پوچھا ویسے آپ کیا کرتے ہیں؟ اس پر بزرگ نے اپنے ہاتھ میں پکڑی کتاب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ میں ابھی اپنی تعلیم مکمل کر رہا ہوں اور میرا نام برٹرینڈ رسل ہے۔
جو قومیں اور افراد یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انکی تعلیم مکمل ہو گئی وہ اپنی ذہنی نشوونما اپنے ہاتھوں سے روک لیتے ہیں اور اپنے ویرانے کا کوئی اچھا سا نام رکھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ جہاں علم مومن کی گمشدہ میراث قرار پا گیا ہو وہاں اپنے ویرانے کا اچھا سا نام رکھ کر مطمئن ہو جانا کفر نہیں تو پھر کیا ہے؟ ایک بات تو طے ہے کہ ہماری اشرافیہ کے ایجنڈے میں عام آدمی کو معیاری تعلیم سے آراستہ کرنا شامل نہیں سیاسی رہنما ہوں یا مذہبی لیڈر، اداروں کے بے بڑے بابو بھی ہوں ان کے بچے تو مغربی تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں۔ لیکن وہ عوام میں فی سبیل اللہ جہالت بانٹنا اپنا فرض اولین سمجھتے ہیں تاکہ اس بحر لاچاری میں کوئی لہر ایسی نہ اٹھ جائے جو ان کے آئندہ کی حکمرانی کے منصوبوں پر پانی پھیر جائے، انہیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لئے عوام کی صورت میں موجیں مارتا اٹلانٹک نہیں بلکہ بحر مردار چاہئے۔ یہ تو اشرافیہ کی سوچ ہے لیکن عام آدمی کو کیا ہو گیا وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لئے جہالت کے اس جال سے باہر کیوں نہیں نکلتا؟ حالات لاکھ نامساعد ہی سہی یہ عہد بھی تو کیا جا سکتا ہے کہ اچھی کتاب کا ایک ورق ہی سہی روزانہ خود بھی پڑھیں گے اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں گے۔ اگر کوئی آپ کو جہالت کے اندھیروں میں رکھنا چاہتا ہے تو اسے علم کی روشنی سے ہی ناکام بنایا جاسکتا ہے۔ اچھے خواب دیکھنا اور انہیں عملی جامہ پہنانے کے لئے دن رات محنت کی چکی میں پسنا ہی زندگی کا اصل مقصد ہے مجھے میٹ ہیگ کا یادگار ناول ”مڈ نائٹ لائبریری“ یاد آگیا۔ (بدقسمتی سے ہمارے ہاں مڈنائٹ جیکال تو ہوتے ہیں مڈ نائٹ لائبریری نہیں ہوتی) ان کے ناول کی یہ لائبریری کائنات کی وسعتوں سے بھی کہیں پرے آباد تھی۔ اچھے خوابوں کے ذریعے اس تک پہنچنا ممکن تھا کہ خواب ہی ہر اچھے عمل کی بنیادی سیڑھی ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک کردار وہاں پہنچ کر دیکھتا ہے کہ لائبریری میں صرف کتابیں ہی نہیں بلکہ متبادل زندگیاں بھی پڑی ہیں۔ اگر آپ موجودہ زندگی میں اپنے آپ کو کامیاب محسوس نہیں کرتے تو وہاں پڑی نئی زندگی اپنالیں اور اس کے مطابق محنت شروع کر دیں ”ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکھا آئے گا“ یہ ایک علامتی ناول ہے جس کا مقصد غالباً اس بات کا ابلاغ ہے کہ اگر آپ زندگی کو کامیاب انداز میں نہیں گزار پا رہے تو مایوسی چھوڑ کر نئے خوابوں کا سہارا لے کر اپنی زندگی میں خوشگوار تبدیلی لائیں اور ایک نئی منزل کی طرف چل پڑیں۔ مایوسیوں میں گھرے معاشروں اور انسانوں کےلئے یہ ناول مشعل راہ ہو سکتا ہے۔ یاد رکھیں آگے بڑھنے کے لئے معیاری تعلیم بہت اہم ہے۔ ریاست نہیں دے پا رہی تو آپ خود عمل پیرا ہو جائیں۔ روزانہ کم از کم ایک ورق اچھی کتاب کا خود بھی پڑھیں اور اپنے بچوں کو بھی پڑھائیں۔ قدیم یونانی فلسفی کہتے ہیں کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ وقت لگے گا لیکن زندگیوں میں پائیدار تبدیلی ضرور آئے گی۔
آج کتابوں کا عالمی دن ہے۔ گھروں سے نکلیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انسانی بہتری کے لئے کام کرنے والے نجی ادارے، وکلا، صحافی سب مل جائیں، لائبریریوں کا رخ کر لیں، سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے انکی حالت زار سب کو دکھائیں، ارباب اختیار کی آنکھیں کھول دیں، یقین رکھیں اس عمل سے وہ اشرافیہ جو جہالت کے اندھیرے پھیلانے کی عادی ہو چکی ہے اپنی ساکھ بچانے کےلئے آپ کے نقش قدم پر چلتی ہوئی کتابوں کےساتھ سیلفیاں بنانے بھی آدھمکے گی۔ میڈیا آج اپنی نشریات کے ذریعے بھرپور طریقے سے ”ایک دن کتاب کے ساتھ“ منائے۔
آخر میں گیم آف تھرونز اور دیگر اہم کتابوں کے مصنف جارج آر آر مارٹن کا ایک قول پیش خدمت ہے کہ : ”کتاب پڑھنے والا ایک ہزار زندگیاں جیتا ہے جبکہ کتاب نہ پڑھنے والے کے حصے میں صرف ایک ہی زندگی آتی ہے۔“ آپ خود فیصلہ کر لیں کہ کتنی زندگیاں جینا چاہتے ہیں؟؟
٭٭٭