منگل‘ 14 شوال 1445ھ ‘ 23 اپریل 2024

Apr 23, 2024

بی ایل ایف معاشی بحران کے باعث کمزور۔ سربراہ نذر اللہ کی عوام سے آٹا فراہم کرنے کی اپیل۔
 نام نہاد سرمچاری (مجاہد) بن کر عوام کو بے وقوف بنانے والے نوجوانوں کو گمراہ کر کے اسلحہ تھمانے والے یہ وہ فراڈی ہیں جو لاکھوں نہیں کروڑوں کے فنڈ کھا گئے۔ بیرون ملک چھپا کر رکھے ہیں اور اب آہستہ آہستہ بلوچ عوام نے ان کی حقیقت جاننے کے بعد ان سے کچھ اس طرح کنارہ کشی اختیار کر لی ہے کہ ان دہشت گرد تنظیموں کو روٹیوں کے لالے پڑ گئے ہیں۔ ڈاکٹر نذر اللہ بی ایل ایف میں اپنے گروپ کے سربراہ ہیں۔ وہ جس طرح اب عوام سے بھوکے مرنے سے بچنے کے لیے آٹا روٹی فراہم کرنے کی اپیلیں کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روٹی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ سچ کہتے ہیں 
ٹڈھ وچ نہیں روٹیاں 
تے ساریاں گلاں کھوٹیاں
اب یہی حال بی ایل ایف والوں کا ہے۔ خالی پیٹ ان کو آزادی سے زیادہ روٹی کی فکر پڑ گئی ہے۔اس وقت پاکستان آرمی نے جس طرح بلوچستان کے طول و عرض میں چمن سے لے کر گوادر تک ملک دشمن عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف شکنجہ کسا ہوا ہے اور سیلاب کی مصیبت میں بلوچستان کے عوام کی مدد کر کے اپنا امیج بہتر بنایا ہے۔ اس سے دہشت گردوں کے ارادوں پر اوس پڑ گئی ہے۔ لوگ دل و جان سے مسلح افواج کی محبت اور خلوص کے قائل ہو گئے ہیں۔ منفی پراپیگنڈا اپنی جگہ، عوام کی خدمت اپنی جگہ۔ امید ہے جلد ہی یہ نام نہاد تنظیمیں بھی اصل صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے راہ راست کی طرف آ جائیں گی ورنہ عید پر یہ سب عوام سے آٹے کے علاوہ قربانی کا گوشت اور کھالیں بھی مانگتے نظر آئیں گے تاکہ کچھ کھا پی سکیں۔ 
٭٭٭٭٭
امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی گئی۔
اب دیکھتے ہیں امریکہ میں کس کس کو ٹک ٹاک پر پابندی سے غشی کے دورے پڑتے ہیں۔ کس کس کی روٹی ہضم نہیں ہوتی۔ کس کس کی راتوں کی نیند اڑ جاتی ہے اور کون کون گلا پھاڑ پھاڑ کر سڑکوں پر اظہار رائے پر آزادی کے غم میں اپنا گریباں چاک کرتا ہے۔ یقین کریں اگر ایسی ہی سخت پابندیاں ہمارے ہاں لگیں تو آدھے سے زیادہ عقل و شعور سے عاری ٹک ٹاکر طبقہ آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ یوں لگتا جیسے ملک میں سب سے اہم مسئلہ مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت، بیماری ، تعلیم نہیں ٹک ٹاک پر پابندی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم کتنے ویہلے لوگ ہیں۔ ”آمدنی ٹکے کی نہیں اور سر کھجانے کی فرصت نہیں“ والی مثال ہم لوگوں پر صادق آتی ہے۔ جسے دیکھو موبائل ہاتھ میں پکڑے لگتا ہے پوری دنیا کا نظام چلا رہا ہے۔ پیدل چلنے والے سے لے کر بس اور ویگن سوار تک موٹر سائیکل سے لے کر گاڑی میں سوار تک ایک ہاتھ میں موبائل تھامے عملاً اس ہاتھ سے معذور ہو چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز حادثات میں موبائل تھامے گاڑی تلے آنے اور نہر اور دریا میں گرنے والوں کے مرنے کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ 
دنیا بھر میں سوشل میڈیا ہمارے ہاں کی طرح مادر پدر آزاد نہیں۔ وہاں کسی نہ کسی سطح پر حکومتیں یا ریاستی ادارے انہیں بہرحال لگام ڈالے نظر آتے ہیں۔ بس فرق یہ ہے کہ وہاں کے لوگ یعنی عوام باشعور ہیں جو اس کا ب±را نہیں مانتے اور ہمارے ہاں تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے منفی قوتیں بے وقوف لوگوں کو استعمال کر کے شور مچاتی ہیں۔ اب سب جانتے ہیں ٹک ٹاک چینی کمپنی ہے جو دنیا بھر میں دھوم مچائے ہوئے ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ٹک ٹاک سے مراد قندیل اور حریم شاہ وغیرہ جیسی چند خواتین اور مرد حضرات ہوتے ہیں جو میک اپ کر کے حور پری بنے نظر آتے ہیں جبکہ یہ صرف ذہنی عیاشی ہے۔ ورنہ دنیا بھر میں اسے ایک موثر سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے مگر ہمیں اس سے کیا لینا دینا ہم بس شور مچانا ہی جانتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
کچے کے ڈاکوﺅں کو خطرناک اسلحہ فراہم کرنے میں وزیر اعلیٰ سندھ کا مشیر بھی ملوث نکلا۔ 
یہ تو سب پہلے سے ہی کہہ رہے تھے کہ سندھ کے بڑے بڑے وڈیرے اپنی دھاک بٹھانے کے لیے کچے کے ان ڈاکوﺅں کی سرپرستی کرتے ہیں انہیں پناہ دیتے ہیں انہیں قانونی تحفظ مہیا کرتے ہیں۔ اب پتہ چلا ہے کہ انہیں قیمتی خطرناک غیر ملکی اسلحہ بھی سندھ کے بااثر سیاستدان ہی دیتے ہیں اور ان ڈاکوﺅں کی طرف سے اغوا ہونے والوں سے ملنے والے تاوان میں سے مناسب حصہ بھی وصول کرتے ہیں۔ اسی بہانے وہ اپنے مخالفین کا ناطقہ بھی بند کرتے ہیں۔ اب گزشتہ کئی ماہ سے کچے کے ڈاکوﺅں کی جاری ہونے والی ویڈیوز سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کھلم کھلا حکومت اور سکیورٹی اداروں کو دھمکیاں دیتے نظر آئے تھے کہ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جو کرنا ہے کر لو۔ یہ اسلحہ ہمیں پولیس والے ہی خرید کر دیتے ہیں اور خوب کمیشن کماتے ہیں۔ اس پر تو اچھی خاصی تھرتھلی مچ گئی۔ سندھ اور پنجاب کے علاوہ اس معاملے کے ڈانڈے پنجاب سے بھی مل رہے تھے۔ ہر جگہ سرداری اور چودھراہٹ برقرار رکھنے کے لئے وڈیرہ شاہی ڈاکوﺅں کی سرپرستی کرتی ہے۔ پولیس بھی ڈاکوﺅں کے اس الزام پر خاموش ہے۔ وجہ یہی ہے کہ یہ صرف الزام نہیں ورنہ کئی ماہ سے جاری آپریشن ابھی تک انجام کو نہیں پہنچا۔ لوگ تو طنزاً کہتے ہیں کچے کے ڈاکوﺅں کو پکے کے ڈاکوﺅں یعنی (پولیس) کی بھی بھرپور حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ 
اب سخت ہاتھ ڈالا گیا تو پتہ چلا کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کے مشیر بلوچستان سے اسلحہ ڈیرہ مراد جمال کے راستے کچے کے ڈاکوﺅں تک پہنچانے کا کام احسن طریقے سے انجام دے رہے تھے۔ فی الحال ان کے بیٹے کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مزید کئی اور نیک نام بھی اگر سامنے آئیں تو مزہ آ جائے گا اور نجانے کتنے وزیر مشیر اور پولیس افسران بھی منہ چھپاتے نظر آئیں گے۔ بے شک یہ ”بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی“ اب اس رسوائی کا سامنا کون کرے۔ لگتا یہی ہے کہ معاملہ بہت جلد ٹھپ کر کے تحقیقاتی کمیشن بنا دیا جائے گا جو تاقیامت کچھ نہیں کر پائے گا۔ پہلے بھی جتنی تحقیقاتی کمیٹیاں بنیں انہوں نے کیا کر کے دکھایا کہ اب کوئی اور دکھائے گا۔
٭٭٭٭٭
لاہور میں ہارٹیکلچر کے زیر اہتمام رنگا رنگ بیساکھی میلہ۔
 اب تو شاید نئی نسل کو یہ بھی معلوم نہ ہو گا کہ ویساکھی یا بیساکھی میلہ ہوتا کیا ہے۔ ممی ڈیڈی گروپ ویسے تو کلچر کی باتیں بھی کرتا ہے مگر دیسی ایام مہینوں اور تہواروں کے بارے میں شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔ بیساکھی جسے پنجابی میں ویساکھی بھی کہتے ہیں پنجاب کے دیسی کیلنڈر کا پہلا مہینہ کہلاتا ہے۔ اس ماہ گندم پک جاتی ہے اور اس کی کٹائی کا سیزن شروع ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے ایک مشہور گیت کے بول کچھ یوں ہیں۔ 
ساڈی کنکاں تو مک گئی راکھی 
او جٹا آئی ویساکھی....
پنجاب کے کسان ایک طویل صبر آزما محنت اورفصل کی حفاظت کے بعد قدرے فراغت محسوس کرتے ہیں تو پنجاب کے روایتی کلچر کے تحت بیساکھی کا میلہ ہر گاﺅں ہر شہر میں منایا جاتا ہے۔ گبھرو جوان اور الہڑ مٹیاریں تو اب پاکستانی پنجاب میں ان میلوں کی شوبھا بڑھاتی نظر نہیں آتیں مگر مشرقی یعنی بھارتی پنجاب میں آج بھی سکھ روایتی پگڑیاں رنگ دار لباس اور ڈانگ اٹھائے ان میلوں میں رنگ جماتے نظر آتے ہیں جہاں گبھرو جوان جٹیاں اور نانکیاں آج بھی گِدھا ، اور بھنگڑے ڈالتی ہیں۔ ہمارے ہاں نیکر یا ہاف شرٹ پہن کر گھومنا تو ب±را نہیں سمجھا جاتا مگر ایسے میلے ٹھیلوں پر شور شرابا ضرور ہوتا ہے۔ اب یہ روایتی میلے ناپید ہو چکے ہیں۔ البتہ پنجاب ہارٹی کلچر کے زیر اہتمام جو آج بھی نہایت تندہی سے پنجاب کلچر کو قائم رکھے ہوئے ہے، لاہور میں بیساکھی کے حوالے سے ایک خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا گیا جو قابلِ تحسین ہے۔ اسی طرح اس حوالے سے لاہور کی سڑکوں ، باغات اور نہر کو دلہن کی طرح سجایا گیا۔ یہ بھی غنیمت ہے۔ ایسی تقریبات ہمیں ہمارے کلچر سے جوڑے رکھنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ اس حوالے سے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کرتارپور میں جس طرح بیساکھی کے حوالے سے گندم کی کٹائی کا افتتاح کیا سکھوں کے ساتھ تقریبات کا آغاز کیا وہ بھی ایک خوش آئند بات ہے۔ اس طرح پنجاب میں مسلم سکھ اور ہندوﺅں کے درمیان ہم آہنگی اور بھائی چارے کا احساس مستحکم ہوتا ہے۔ 
٭٭٭٭٭

مزیدخبریں