اتوار کو چاروں صوبوں میں قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی سولہ خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے جن میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) نے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق واضح برتری حاصل کی۔ قومی اسمبلی کی دو نشستوں پر پنجاب، دو پر خیبر پختونخوا اور ایک پر سندھ میں ضمنی انتخاب ہوا جبکہ صوبائی اسمبلی کی پنجاب میں بارہ، خیبر پختونخوا میں دو اور بلوچستان میں دو نشستوں کے لیے انتخابات ہوئے۔ ان انتخابات کے دوران سب سے بڑا صدمہ پاکستان مسلم لیگ (قائداعظم) کو پہنچا جس کے اہم رہنما چودھری پرویز الٰہی اور ان کا بیٹا مونس الٰہی ہار گیا۔ مسلم لیگ (ن) نے لاہور، شیخوپورہ، تلہ گنگ، نارووال، بھکر اور ڈیرہ غازی خان میں اپنی خالی کردہ تمام نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ پاکستان تحریک انصاف وزیر آباد میں اپنی عام انتخابات میں جیتی ہوئی نشست ضمنی انتخابات میں نون لیگ کے امیدوار سے ہار گئی۔
وزیراعظم محمد شہبازشریف نے ضمنی انتخابات میں منتخب ہونے والے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب ارکان کی جیت عوام کے اعتماد کا مظہر ہے۔ وزیر اعظم کی طر ف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ضمنی انتخاب میں نون لیگ کو ووٹ دینے والے عوام کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں اور عوام کو یقین دلاتے ہیں کہ ان کی خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ پوری دیانتداری اور محنت سے عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی کوشش کریں گے۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ معاشی بہتری کے واضح ہوتے آثار کے ساتھ عوامی رائے میں تبدیلی بھی نمایاں ہورہی ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن)کے امیدواروں کی کامیابی معیشت کی بحالی، مہنگائی میں کمی اور خارجہ تعلقات کی بہتری کی حکومتی خدمت کا عوامی اعتراف ہے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ معاشی بہتری اور عوامی ریلیف میں اضافے کے ساتھ آنے والے وقت میں عوامی رائے مزید تبدیل ہوگی، ان شاءاللہ عالمی مالیاتی اداروں، خبررساں اداروں اور سرویز میں معاشی بہتری کی پیش گوئیوں نے بھی عوام کی رائے پر مثبت اثر ڈالا ہے۔
افسوس ناک امر یہ ہے کہ ضمنی انتخابات کے دوران مختلف پولنگ سٹیشنز پر لڑائی جھگڑے اور بدنظمی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ نارووال کے حلقہ پی پی 54 کے گاو¿ں کوٹ ناجو میں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں جھگڑا ہوا جس کے نتیجے میں لیگی کارکن جاں بحق ہوگیا۔ پولیس کے مطابق، مخالفین نے جھگڑے کے دوران سر میں ڈنڈا مار دیا تھا، شدید زخمی 60 سالہ محمد یوسف ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی جان کی بازی ہار گیا، واقعے کے بعد پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی۔ جھگڑے کے بعد ووٹنگ کا عمل روک دیا گیا ہے۔وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے نارووال میں جاں بحق لیگی کارکن محمد یوسف کے قتل پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔انھوں نے محمد یوسف کے اہل خانہ سے اظہار تعزیت اور دلی ہمدردی کا اظہار کی اور کہا کہ قاتلوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔پی ٹی آئی کی غنڈہ گردی کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ سیاست کو نفرت اور ذاتی دشمنی میں تبدیل کرنا معاشرے کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ سیاست خدمت اور اصلاح کا نام ہے تشدد اور عدم برداشت کا نہیں۔ سیاست کو ذاتیات اور تشدد کی حد تک پہنچانے والے لوگ ہی اصل قوم کے دشمن ہیں۔
ضمنی انتخابات کے دوران پیش آنے والے غیر معمولی واقعات میں ایک یہ بھی ہے کہ لاہور کے حلقہ پی پی 149 کے پولنگ سٹیشن 127 پر پریذائیڈنگ افسر نے پولنگ ایجنٹوں سے قبل از وقت ہی فارم 45 پر دستخط کروا لیے۔ سنی اتحاد کونسل کے کارکنوں کی جانب سے پولنگ سٹیشن پر احتجاج کیا گیا۔ کارکنوں کا کہنا تھا کہ فارم پر پہلے دستخط کیوں کرائے، یہ دھاندلی ہے۔ احتجاج کرتے ہوئے کارکنوں نے نعرے بازی کی اور مطالبے پر پریذائیڈنگ افسر نے بھی اعتراف کر لیا۔ پریذائیڈنگ افسر نے کہا کہ شام کو وقت کم ہوتا ہے اس لیے فارم پر دستخط وقت بچانے کے لیے کروائے۔ سنی اتحاد کونسل رہنما نے کہا کہ یہ پری پول رگنگ ہے، لہٰذا پریذائیڈنگ افسر کو گرفتار کیا جائے۔ احتجاج کے بعد پریزائیڈنگ افسر نے دستخط شدہ فارم 45 پھاڑ دیے۔ الیکشن کمیشن نے پریذائیڈنگ افسر کی جانب سے فارم 45 پر پیشگی دستخط کروائے جانے کے معاملے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب سے فوری رپورٹ طلب کر لی ہے تاکہ اس معاملہ پر کمیشن مزید قانونی کارروائی عمل میں لاسکے۔
پارلیمان کی خالی نشستوں کی وجہ سے جو کمی رہ گئی تھی وہ ضمنی انتخابات کے بعد پوری ہوگئی ہے۔ اب سیاسی جماعتوں کو الزام تراشی کی سیاست چھوڑ کر عوام کی خدمت پر توجہ دینی چاہیے۔ ملک اس وقت جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کا حل اسی صورت مل سکتا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یہ دیکھیں کہ انھوں نے اپنا مثبت کردار کیسے ادا کرنا ہے۔ حزبِ اقتدار کو اگر ملک چلانے کے لیے مینڈیٹ ملا ہے تو حزبِ اختلاف کو بھی عوام نے یہ ذمہ داری دی ہے کہ وہ حکومت کے معاملات پر نظر رکھے اور جہاں کوئی گڑبڑ دکھائی دے اس کے بارے میں نہ صرف عوام کو آگاہ کرے بلکہ معاملات میں سدھار پیدا کرنے کے لیے عملی اقدامات بھی کرے لیکن یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب حزبِ اختلاف پارلیمان کے اندر موجود ہو۔ سڑکوں اور چوراہوں پر الزام تراشی اور لڑائی جھگڑا تو ہوسکتا ہے مگر ملک اور عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں، اگر کسی کو لگتا ہے کہ عام یا ضمنی انتخابات کے دوران دھاندلی ہوئی ہے اور اس کے پاس اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے شواہد موجود ہیں تو اسے متعلقہ فورمز سے رجوع کرنا چاہیے تاکہ اس کے پاس موجود ثبوتوں اور شواہد کی روشنی میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ اب وقت لڑائی جھگڑے کا نہیں، ملک، اس کی معیشت اور جمہوری نظام کو مستحکم بنا کر آگے بڑھانے کا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو معاملہ فہمی سے کام لینا چاہیئے۔