پیر کی صبح چھپے کالم میں تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کی تھی کہ اتوار کے دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہوئی جن نشستوں پر ’’ضمنی انتخاب‘‘ ہونا ہیں ان کے بارے میں ’’تخت یا تختہ‘‘ والا ماحول نہیں بن رہا۔ پنجابی محاورے والا ’’ٹھنڈ پروگرام‘‘ ہے۔ اتوار کی شام پولنگ مکمل ہوجانے کے بعد میرے اندازے درست ثابت ہوئے۔ چند مقامات پر سخت مقابلے کی فضا یقینا نظر آئی۔ نارووال کے صوبائی اسمبلی والے حلقے میں مسلم لیگ کا ایک کارکن بدقسمتی سے قتل بھی ہوگیا۔ پنجاب بھر میں لیکن بالعموم اور خصوصاََ لاہور میں مقابلہ ’’یک طرفہ‘‘ ہی رہا۔ مسلم لیگ (نون) 8فروری کے دن جیتے ہوئے حلقے بچانے میں کامیاب رہی۔ یہ حلقے بچالینے کے بعد مسلم لیگ (نون) اس تاثر کو شدت سے جھٹلانے کی کوشش کرے گی کہ اس نے نام نہاد ’’فارم47‘‘ کے ذریعے ’’فارم 45‘‘ کی بدولت رونما ہوئے انتخابی نتائج کو مبینہ طورپر اپنے حق میں دھونس دھاندلی کے ذریعے ’’تبدیل‘‘ کرلیا تھا۔
پیر کی صبح چھپے کالم میں ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں یہ لکھنے کو مجبور ہوا تھا کہ اگر تحریک انصا ف ضمنی ا نتخاب کو جاندار بنانے میں سنجیدہ تھی تو اسے لاہور میں قومی اسمبلی کی اس نشست پر اپنی تمام تر توانائی مرکوز کردینا چاہیے تھی جو پنجاب کا وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کی خاطر مریم نواز صاحبہ نے خالی کی تھی۔ فقط اس نشست پر ہوئے ضمنی انتخاب کو ’’تخت یا تختہ‘‘ والا معرکہ بناتے ہوئے تحریک انصاف اپنے اس دعویٰ کو ٹھوس مواد فراہم کرسکتی تھی کہ 8فروری کے دن ہوئے انتخاب میں اس نے لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی زیادہ تر نشستیں جیت لی تھیں۔ نام نہاد ’’فارم 47‘‘ کے ذریعے انتخابی نتائج کو مگر دھونس اور دھاندلی سے بدل دیا گیا۔ مریم نواز صاحبہ کی جانب سے مقابلے کی خاطر خالی چھوڑی قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے لئے تحریک انصاف کی قیادت کے لئے لازم تھا کہ وہ لاہور کو ’’بیس کیمپ‘‘ میں بدل دیتی۔ تحریک انصاف کے صف اوّل کے رہ نما اس شہر میں جمع ہوکر گلی محلوں میں روزانہ کی بنیاد پر عوامی رابطہ مہم کے سہارے یہ پیغام اجاگر کرسکتے تھے کہ شہر لاہوراب شریف خاندان کا قلعہ نہیں رہا۔ اس کے باسیوں کی اکثریت اپنا دل اب زمان پارک سے اڈیالہ جیل بھیجے کپتان کے سپرد کرچکی ہے۔
تحریک انصاف اپنے دفاع میں یہ عذر تراش سکتی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ اس کے بارے میں ’’وحشی‘‘ بن چکی ہے۔ ’’ایجنسیاں‘‘ اس کے سرگرم کارکنوں کا سراغ لگانے کو بے چین رہتی ہیں۔ ان کا پتہ چل جائے تو انہیں اٹھاکر سنگین مقدمات میں ملوث کردیا جاتا ہے۔ دوران گرفتاری تفتیش کے بہانے ظالمانہ تشدد کا شکار ہوا کارکن سیاسی جدوجہد میں حصہ لینے کے ناقابل بنایا جارہا ہے۔ تحریک انصاف کا جو دعویٰ ہے وہ مبالغہ آرائی کے باوجود قطعاََ غلط بھی نہیں۔ وطن عزیز میں تاہم برطانوی دور ہی سے حکمران مخالف سیاسی جماعتوں یا کارکنوں کی زندگیاں شدید مشکلات کا شکار رہی ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ہماری پولیس اور انتظامیہ حکمرانوں کے ناپسندیدہ افراد کو سبق سکھانے کو بلکہ ہمہ وقت بے قرار رہتی ہے۔ اس کے با وجود 1950ء کی دہائی سے 1990ء کی دہائی تک حکومت مخالف سیاسی جماعتیں اور کارکن ضمنی انتخابا ت کو ’’تاریخ بدلنے‘‘ کے لئے استعمال کرنے کی سرتوڑ کوششیں کرتے رہے ہیں۔ اس ضمن میں چند ٹھوس مثالیں بھی گنوائی جاسکتی ہیں۔ ان میں الجھ کر لیکن ہم اصل موضوع سے بھٹک جائیں گے۔
تحریک انصاف کے متحرک حامیوں کو کھلے دل سے تسلیم کرنا ہوگا کہ تمام تر رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود انہوں نے 8فروری2024ء کے روزِ انتخاب جو ’’جلوہ‘‘ دکھایا تھا اس کی گرم جوشی برقرار رکھنے میں وہ ناکام ہورہے ہیں۔ بانی تحریک انصاف ان دنوں جیل میں ہیں۔ ان سے وہاں مل کر آنے والا تقریباََ ہر شخص الگ الگ پیغام دیتا ہے۔ تحریک انصاف کے عام کارکنوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان کے کپتان کا ’’حقیقی ترجمان‘‘ کون ہے۔ وہ شیر افضل مروت کے بیانات کو بانی تحریک انصاف کے خیالات کا حقیقی عکاس تصور کریں یا بیرسٹر گوہر سے رہ نمائی کے طلب گار ہوں۔ اصولی طورپر قائد حزب اختلاف تعینات کئے جانے کے بعد تحریک انصاف کی حتمی کمانڈ عمر ایوب خان کے سپرد ہونا چاہیے تھی۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ امریکہ میں ایک محاورہ ہے جو گلہ کرتا ہے ’’اس قبیلے کا ہر شخص چیف(سردار) ہے‘‘۔ تحریک انصاف اب ایسا ہی قبیلہ نظر آنا شروع ہوگئی ہے جس کی حمایت سے قومی یا صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ میں پہنچا ہر شخص اب ’’سولو‘‘ یا تنہا پرواز کو ترجیح دے رہا ہے۔
تنہا پروازی کی روش نے لاہور میں ہوئے ضمنی انتخابات کو سنجیدگی سے نہیں لیا وگرنہ اس شہر میں فقط مریم نواز صاحبہ کی جانب سے خالی کردہ قومی اسمبلی کی نشست کو جیتنے کی بھرپور کوشش شریف خاندان کو شدید پریشان کرسکتی تھی۔ اس پہلو کی جانب عدم توجہ مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ 8فروری کے بعد تحریک انصاف کی حمایت سے منتخب ایوانوں میں پہنچے افراد کے رویے نے عاشقان عمران خان کو مایوس بنانا شروع کردیا ہے۔ ان کی اکثریت سیاسی عمل سے دوری اختیار کرنا بھی شروع ہوگئی ہے۔
اگر میری سوچ درست ہے تو یہ وطن عزیز کیلئے کوئی اچھی خبر نہیں۔ توانا تر جمہوری عمل کے بغیر پاکستان جدید دور کے تقاضے نبھاتی ریاست بن نہیں سکتا۔ اس ریاست کو جاندار بنانے کے لئے تازہ خیالات کی ضرورت ہے جو نوجوان نسل دورِ حاضر کے جدید تر ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی لوگوں کے دلوں کو گرمانے کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔ تحریک انصاف کی حقیقی قوت سوشل میڈیا پر حاوی نوجوان نسل کے افراد تھے۔ ان کی ذہانت ومہارت کی وجہ سے 8فروری کے دن عام شہری کو بھی یہ علم ہوگیا کہ اس کے حلقے میں تحریک انصاف نے کس شخص کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے لئے امیدوار نامزد کیا ہے اور اس کا انتخابی نشان کیا ہے۔ گزشتہ دو دنوں سے میں طالب علمانہ تجسس سے یہ جاننے میں مصروف رہا کہ اتوار کے روز ہوئے ضمنی انتخاب کے لئے بھی 8فروری 2024ء کی طرح سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے کوئی ’’بیانیہ‘‘ تشکیل دیا جارہا ہے یا نہیں۔ تمام تر کاوشوں کے باوجود میں اس کا سراغ لگانے میں ناکام رہا ہوں اور اتوار کے دن ا نتخابی نتائج آنے کے ساتھ ہی مسلم لیگ (نون) یہ دعویٰ کرنا شروع ہوگئی ہے کہ پنجاب گویا اس کے پاس واپس آگیا ہے۔ یہ طے کرنے میں اگرچہ وقت درکار ہے کہ اس کا دعویٰ کس حد تک درست ہے یا محض خام خیالی۔
عاشقانِ عمران خاں کی مایوسی کے عکاس ضمنی انتخابات کے نتائج
Apr 23, 2024