21 اپریل کی تاریخ پی ٹی آئی پر بھاری رہی۔ ایک دن میں اس کے ساتھ سرقہ بالجبر کی اکٹھی تین تین وارداتیں ہوئیں۔ یعنی ایک نہیں، دو نہیں، پوری تین وارداتیں۔
پہلے تو، دن دہاڑے اس کا مینڈیٹ چوری کر لیا گیا۔ رات کے ابتدائی حصے میں مینڈیٹ کے بعد اس کا مینڈک بھی چوری کر لیا گیا اور تیسرا سانحہ اس کے مشہور زمانہ ’’نک دے کوکے‘‘ کے ساتھ ہوا۔ بعض کا کہنا ہے کہ چوری کر لیا گیا، کچھ دوسرے بتا رہے ہیں کہ چوری نہیں ہوا، مسرّت نذیر کے ’’لونگ ‘‘ کی طرح یہ بھی ’’گواچ‘‘ گیا ہے۔
مینڈیٹ چوری یوں ہوا کہ ضمنی الیکشن میں پنجاب کی ساری سیٹوں پر اسے ہروا دیا گیا۔ دو ہفتے سے پی ٹی آئی کے رہنما اپنے بیانات اور ٹی وی شوز میں اپنے حامیوں کو یقین دلا رہے تھے کہ ضمنی الیکشن میں وہ 21 میں سے پچیس تیس سیٹیں تو آسانی سے جیت جائیں گے۔ مایہ ناز پراپرٹی ٹائیکون کے زیر ’’قبضہ‘‘ بڑا نشریاتی ادارہ ان کی ہاں میں اپنی ہاں سر ہلا ہلا کے ملا رہا تھا۔ لیکن جب پولنگ ڈے ہوا تو انہونی ہو گئی۔ پی ٹی آئی کو دوپہر کے لگ بھگ ایک بجے یہ ’’کشف‘‘ ہو گیا تھا کہ مینڈیٹ چوری کر لیا جائے گا اور پھر وہی ہوا۔
مینڈک چوری ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ سہ پہر کے وقت پی ٹی آئی کے مایہ ناز رہنما حماد اظہر نے ایک ارجنٹ ٹویٹ کیا کہ ہمارا مینڈیٹ چوری ہو گیا ہے، فوراً ملک بھر کی سڑکوں پر نکل آئیں۔ انہوں نے لاہور کے پانچ مقامات نامزد کئے کہ لاہور کے لوگ یہاں پہنچیں اور بھرپور احتجاج کریں۔ ایک مقام ان میں ریگل کا تھا، دوسرا انجینئرنگ یونیورسٹی کا۔ رات گئے تک کوئی ایک بھی کارکن نہیں پہنچا تھا۔ رات گئے پی ٹی آئی کے ایک میڈیا ورکر نے انجینئرنگ یونیورسٹی کے باہر کھڑے ہو کر ویڈیو ریکارڈ کر کے اپ لوڈ کی کہ اتنی رات ہو گئی ہے، ابھی تک ایک بھی کارکن احتجاج کیلئے نہیں پہنچا۔ میڈیا ورکر کے لہجے میں درد و سوز بھی تھا، صدمے کی جھلک بھی تھی اور قدرے بے یقینی بھی۔
پھکی پے گئی چن تاریاں دی لو
تو اجے وی نہ آیوں سجنا۔
اس دردناک ماجرے کو ’’مینڈک ‘‘ چوری ہونا قرار دیا جا رہا ہے، یعنی پہلے مینڈیٹ گیا، پھر اس کے پیچھے پیچھے مینڈک بھی۔ اور نک دا کوکا یوں گواچا کہ 8 فروری کے الیکشن میں جو یہ بیانیہ بنایا گیا تھا کہ ہم تو 188 سیٹوں پر جیتے ہیں لیکن نتیجے بدل دئیے گئے تو وہ بھی اڑنچھو ہو گیا۔ پی ٹی آئی کی آئندہ سیاست اب نک دے کوکے کے بغیر ہی ہو گی۔
تین تین سانحے۔ حکومت کو کم سے کم سوگواروں سے یک جہتی کیلئے ایک روز کی تعطیل تو کرنی ہی چاہیے۔
___
چھ سات بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ ٹی وی چینلز کی سہولت کاری سے پی ٹی آئی کا یہ شور و غوغا منظر پر چھایا رہا کہ اس کا مینڈیٹ چوری ہوا ہے لیکن اب بنی گالہ سے اٹھنے والی ’’سموگ‘‘ چھٹنے لگی ہے تو پتہ چل رہا ہے کہ مینڈیٹ تو کسی اور کا چوری ہوا تھا۔ اس حوالہ سے جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کوئٹہ میں ایک بڑا جلسہ کیا اور اس سے خطاب بھی کیا۔ خطاب ایسا گرم کہ نہ تو کسی اخبار نے اسے پورا چھاپنے کی ہمت کی نہ کسی چینل نے دکھانے سنانے کی۔ کراچی کے ایک انگریزی اخبار نے البتہ اس کے کچھ کم گرم حصے چھاپ دئیے۔ لیکن ’’یہ کم گرم‘‘ بھی اتنے گرم ہیں کہ اس کالم میں نقل کرنا آسان نہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ کچھ پردہ نشینوں کا ذکر کر دیا جنہوں نے ان کے بقول صرف پختونخواہ میں ان کی جیتی ہوئی بارہ سیٹیں پی ٹی آئی کے حوالے کر دیں۔ اس ضمن میں انہوں نے کسی نذرانے کا ذکر بھی کیا جس کی مالیت 70 یا /80 ارب روپے بتائی جاتی ہے۔
پنجاب میں جو ہوا، اس کی ان کہی کہانی بھی جھلک مارنے لگی ہے۔ جاوید لطیف نے بتایا کہ صرف شیخوپورہ کی پانچ سیٹیں نواز لیگ سے چھین کر پی ٹی آئی کے حوالے کی گئی تھیں۔ وصول کردہ نذرانے کی مالیت، ان کے بقول 90 کروڑ تھی۔ ان کہی کہانی میں پنجاب سے قومی اسمبلی کی بارہ سے پندرہ سیٹوں کا ذکر آتا ہے جہاں نواز شریف کے وفادار سمجھے جانے والے امیدوار جیت گئے تھے لیکن انہیں ہرا کر پی ٹی آئی کو جتوا دیا جائے تاکہ…
’’تاکہ‘‘ کے آگے کیا ہے، یہ نہیں بتائوں گا، اس کے بجائے چینی رہنمائوں کا ایک بیان پیش کروں گا۔ بیان نہیں، دراصل بات چیت ہے جو انہوں نے چین کا دورہ کرنے والے پاکستانی پارلیمانی وفد سے کی اور کہا کہ کچھ عناصر ’’سی پیک‘‘ کو روکنا چاہتے ہیں۔
سی پیک 2014ء سے رکا ہوا ہے۔ بنی گالہ کی حکومت ختم ہوئے دو سال سے اوپر ہو گئے، پھر بھی سی پیک رکا ہوا ہے۔ کب تک رکا رہے گا، شاید یہی بتانے یا جاننے کیلئے نواز شریف چین کے دورے پر چلے گئے ہیں۔ (حالانکہ یہ بات پاکستان کے اندر سے ہی معلوم ہو سکتی تھی)
_____
فخرِ گجرات پرویز الٰہی بھی اپنے ’’جلاوطن‘‘ فرزند دلپسند کے ہمراہ ضمنی الیکشن ہار گئے۔ ’’فخر گجرات خیر سے پی ٹی آئی کے ’’صدر‘‘ کے عہدے پر بھی براجمان ہیں۔ انہیں 40 ہزار کی لیڈ سے شاندار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اخباری رپورٹ میں ہے کہ مختصر مدت کے دوران وہ مسلسل دوسرا الیکشن ہارے ہیں۔ یعنی ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ سنا ہے کہ پی ٹی آئی ان کیلئے ایک سیٹ خالی کر کے پھر سے انہیں ضمنی انتخابات لڑانا چاہتی ہے تاکہ ’’ہیٹ ٹرک‘‘ مکمل ہو جائے۔ (الیکشن ہارنے کی)۔
مینڈیٹ کے ساتھ مینڈک بھی چوری
Apr 23, 2024