سائفر کیس کر منل چا رج ہے شک کا معمولی فائدہ  بھی ملز موں کو ہوگا اسلام آباد ہا ئیکورٹ 

اسلام آباد ( وقائع نگار) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل ڈویژن بنچ نے سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی سزاؤں کے خلاف اپیلوں پر سماعت آج تک ملتوی کر دی۔  سپیشل پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سائفر کی تعریف کر دیں کہ سائفر ہوتا کیا ہے؟۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ جی میں اسی سے شروع کروں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ سائفر خفیہ دستاویز تھا یا ہر سائفر ہوتا ہے؟۔ حامد علی شاہ نے کہا کہ قانون کے مطابق ہر کوڈڈ دستاویز سیکرٹ ڈاکومنٹ ہوتا ہے ، 7 مارچ کو ای میل کے ذریعے وزارت خارجہ کو سائفر موصول ہوتا ہے ، وزارت خارجہ کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام پر نمبر لگایا جاتا ہے، قانون کے مطابق وہ دستاویزات جو ملک میں خفیہ طور پر بھیجے جاتے ہوں وہ سیکریٹ ہوتے ہیں، ایف آئی اے پراسیکیوٹر نے سیکرٹ لینگویج کا کتابچہ عدالت میں پیش کر دیا۔ چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ سلمان صاحب آپ خوش قسمت ہیں آپ نے یہ کتاب دیکھی ہے۔ عدالت نے سپیشل پراسکیوٹر سے استفسار کیا کہ یہ کلاسیفائیڈ تو نہیں ہے؟ سپیشل پراسکیوٹر نے کہا کہ اس کتاب پر نمبر لگا ہوا ہے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے نام پر جاری ہوئی ہے ، یہ کتاب مخصوص ہاتھوں میں ہی جا سکتی ہے ، یہ بْک جس شخص کے نام ایشو ہوتی ہے اس نے ہر چھ ماہ بعد بتانا ہوتا ہے کہ اس کے پاس ہی ہے، بڑا متبرک ڈاکومنٹ ہے اس کی کاپی سلمان صاحب کے پاس تھی انہوں نے دلائل بھی دئیے، ایک کوڈڈ فارم ، فرنچ کا لفظ ہے انکلئیر اور ایک قسم literal text ہے ، کوڈڈ فارم سے انگریزی زبان میں لانا انکلئیر ہے پھر پیراگراف میں لانے کو literal ٹیکسٹ ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا کوڈڈ سائفر میسج کسی سٹیج پر intercepte تو نہیں ہوا؟ سپیشل پراسکیوٹر نے کہا کہ جی کوڈڈ سائفر کسی سٹیج پر intercepte نہیں ہوا، سائفر کی سافٹ پرنسپل کاپی آج بھی وزارت خارجہ میں موجود ہو گی، ای میل کے ذریعے آنے والی سافٹ پرنسپل کاپی اپنے پاس محفوظ رکھنے کے بعد ضائع کردی جاتی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں خصوصی طور پر علم نہیں کہ سائفر کیا ہوتا ہے، آپ نے بتانا ہے۔ پراسکیوٹر نے کہا کہ سائفر کا متن بھی معلوم ہو جائے تو اس کے کوڈ توڑے جا سکتے ہیں، سائفر کی تین فارمز ہوتی ہیں ، کوڈڈ، انکلیئر اور تیسرا لٹرل، لٹرل کا مطلب یہ ہے کہ حقیقی طور پر جو کہا گیا وہ بتایا گیا ہے، صرف سائفر نہیں بلکہ اس کا متن بھی محفوظ رکھا جانا ہوتا ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا سائفر کو کسی نے انٹرسیپٹ کیا؟ پراسیکیوٹر نے کہا کہ کوڈڈ سائفر کسی سطح پر انٹرسیپٹ نہیں ہوا ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ سائفر accountable ڈاکومنٹ ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کتاب کے اندر سے پڑھ کر بتائیں سائفر کو accountable ڈاکومنٹ کیسے کہیں گے؟ چیپٹر آٹھ میں لکھا ہوا ہے ایک دفعہ سے intercepte نہیں ہو گا بلکہ بار بار کرے تو تب ہی معلوم نہیں ہو سکے گا، کیا یہ کتاب ٹرائل کورٹ کے سامنے تھی ؟ پراسکیوٹر نے کہا کہ دلائل میں تھی لیکن کورٹ کو نہیں دی تھی ، کسی غیر مجاز فرد کے پاس یہ ڈاکومنٹ بھی نہیں جا سکتا ، کیا اٹارنی جنرل نے سرٹیفیکیٹ دیا ہے ؟ ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ صرف سائفر نہیں بلکہ سارے آفیشل سیکریٹ ریکارڈ پر آتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ میرے ٹیکس ریٹرن پبلک ڈاکومنٹ نہیں ہیں صرف ایف بی آر کے ریکارڈ کے لئے ہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ٹرائل جج نے کہا ہے کہ انہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ قانون ہے ؟ یا ہدایات ہیں ؟ پراسکیوٹر نے کہا کہ یہ سیکرٹریٹ کی ہدایات ہیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ بتا رہے ہیں سائفر کو گریڈ کیسے کیا جا سکتا ہے یہ بھی بتانا ہے قانون کی خلاف ورزی کہاں ہوئی ؟ جب سائفر آجاتا ہے تو اسے کلاسیفائیڈ کون کرتا ہے ؟ پراسکیوٹر نے کہا کہ سائفر وزرات خارجہ کا متعلقہ سیکشن کلاسیفائیڈ کرتا ہے ، جو موضوع آپ کے سامنے پیش کروں گا اس کے متعلق گواہوں پر دلائل بھی ساتھ دوں گا ، ایف آئی اے پراسیکیوٹر حامد علی شاہ نے سائفر آفسر کے بیان کو پڑھ کر سنایا اور کہا کہ یہ سائفر گریڈ ٹو کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ ہے ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس کے contents کے بارے میں کسی گواہ نے کچھ کہا ؟ پراسکیوٹر نے کہا کہ اس کے حوالے سے specifically کسی نے نہیں کہا ، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا سائفر کاپی تفتیشی افسر کو بھی فراہم نہیں کر سکتے ؟ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس ڈاکومنٹ کو سیکرٹ رکھنا ہے ایک چیز ہے ، عدالت کو دکھانے کا تو میکنزم ہے کیا پراسیکوشن سزائے موت مانگ رہی تھی ؟ پراسیکوشن نے اس کے خلاف اپیل دائر نہیں کی ، وہاں بھی اس کا متن دکھانا مناسب نہیں سمجھا گیا ؟ وہاں قانون میں لکھا ہوا ہے آپ عدالت کو خالی کرا سکتے ہیں ، پورا کیس اس ڈاکومنٹ کے اردگرد کھڑا ہے ، پراسکیوٹر نے کہا کہ انہوں نے کہا کچھ اور نے بھی کاپی واپس نہیں کی ، ان 9 میں بڑے نام ہوں گے میری تو جرات نہیں ہے ، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا اعظم نے ان دونوں کو یہ بات بتایا تھا کہ اس ڈاکومنٹ کی حساسیت کیا ہے ؟ ان دونوں نے اس کو رٹا ہوا تو نہیں ہے ، بعض اوقات آپ کو نہیں پتہ ہوتا آپ نے ان کو کیسے ڈیل کرنا ہوتا ہے ، پراسکیوٹر نے کہا کہ ہر کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹ کے اوپر لکھا ہوتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ اوپر والا تو ہمارے پاس ہے نہیں کیونکہ ڈاکومنٹ تو ریکارڈ پر ہے ہی نہیں ، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ یہ کرمنل کیس ہے اس میں شک کا فائدہ ان کو جائے گا ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کرمنل چارج ہے اس میں چھوٹا  بھی شک کا معمولی فائدہ بھی ملزموں کو جائے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...