بلوچستان میں دریائے سندھ کے پے درپے آنے والے دو سیلابی ریلوں نے بڑے پیمانے پر تباہی مچائی ہے۔ سیلاب سے متاثرہ ضلع جعفرآباد کی تحصیل صحبت پور،جھٹ پٹ اور گنداخہ مکمل طور پرپانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ تحصیل گنداخہ میں سینکڑوں مکانات منہدم ہوچکے ہیں جبکہ متعدد رہائش کے قابل نہیں رہے ہیں۔
روجھان جمالی اور ڈیرہ الہ یار کے مختلف علاقوں میں پانی کی سطح بلند ہوکردس فٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ اوستہ محمد کا علاقہ بھی بدستور چاروں اطراف سے پانی میں گھرا ہواہے۔ پاک فوج کے چار ہیلی کاپٹرز متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کررہے ہیں۔ادھر سات روز گزرجانے کے باوجود جعفرآباد کا ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ بحال نہیں ہوسکا ۔ متاثرہ علاقوں میں تاحال ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں جو حکومتی امداد نہ ملنے کی وجہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ڈیرہ الہ یار سے جیکب آباد تک بیس کلو میٹر کا ریلوے ٹریک پانی میں بہہ جانے کی وجہ سے ٹرین سروس معطل ہے جبکہ حکومت نے متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی کیلئے ڈیرہ مراد جمالی سے کوئٹہ اور سبی کے لیے متبادل شٹل سروس شروع کردی ہے۔ کوئٹہ ، سبی ، ڈھاڈر اور بختیار آباد کے ریلیف کیمپس میں متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہونے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ ناقص پانی کے باعث متاثرین میں ہیضہ ،آشوب چشم اورجلدی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔انتظامیہ کے مطابق کیمپس میں پانچ سو سے زائد بچے پیٹ کے امراض کا شکار ہیں جن کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ادھر کوئٹہ پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران نصیرآباد کے سابق یوسی ناظم گل حسن بگٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقے ڈیرہ اللہ یار شہر کا پانی فوری طور پر نکالا جائے اور پانی سے بچے ہوئے دیہات کی فوری طور پر بجلی بحال کی جائے۔
روجھان جمالی اور ڈیرہ الہ یار کے مختلف علاقوں میں پانی کی سطح بلند ہوکردس فٹ تک پہنچ گئی ہے جبکہ اوستہ محمد کا علاقہ بھی بدستور چاروں اطراف سے پانی میں گھرا ہواہے۔ پاک فوج کے چار ہیلی کاپٹرز متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کررہے ہیں۔ادھر سات روز گزرجانے کے باوجود جعفرآباد کا ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ بحال نہیں ہوسکا ۔ متاثرہ علاقوں میں تاحال ہزاروں افراد پھنسے ہوئے ہیں جو حکومتی امداد نہ ملنے کی وجہ سے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبورہیں۔ڈیرہ الہ یار سے جیکب آباد تک بیس کلو میٹر کا ریلوے ٹریک پانی میں بہہ جانے کی وجہ سے ٹرین سروس معطل ہے جبکہ حکومت نے متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی کیلئے ڈیرہ مراد جمالی سے کوئٹہ اور سبی کے لیے متبادل شٹل سروس شروع کردی ہے۔ کوئٹہ ، سبی ، ڈھاڈر اور بختیار آباد کے ریلیف کیمپس میں متاثرین کی تعداد لاکھوں میں ہونے کی وجہ سے اشیائے خوردونوش اور ادویات کی شدید قلت ہے۔ ناقص پانی کے باعث متاثرین میں ہیضہ ،آشوب چشم اورجلدی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔انتظامیہ کے مطابق کیمپس میں پانچ سو سے زائد بچے پیٹ کے امراض کا شکار ہیں جن کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔ ادھر کوئٹہ پریس کلب میں ایک نیوز کانفرنس کے دوران نصیرآباد کے سابق یوسی ناظم گل حسن بگٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقے ڈیرہ اللہ یار شہر کا پانی فوری طور پر نکالا جائے اور پانی سے بچے ہوئے دیہات کی فوری طور پر بجلی بحال کی جائے۔