صلابت و ناتوانی

Aug 23, 2011

سفیر یاؤ جنگ
اسرار احمد کسانہ
اقبالؒ کا فلسفہ¿ خودی ہمیں اس بات کا سبق دیتا ہے کہ افراد یا اقوام جب بھی بے عملی کا شکار ہوتی ہیں تو نیست و نابود ہو جاتی ہیں۔1936 میں پروفیسر ظفر احمد صدیقی کے نام اپنے خط میں انہوں نے لکھا:” جب انسان میں خوئے غلامی راسخ ہوجاتی ہے تو وہ ہر ایسی تعلیم سے بیزاری کے بہانے تلاش کرنے لگتا ہے جس کا مقصد قوتِ نفس اور روحِ انسانی کا ترفع ہو“۔
اپنے نکتے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے علامہ یوں رقم طراز ہیں:
” دینِ اسلام نفسِ انسانی اور اُس کی مرکزی قوتوں کو فنا نہیں کرتا بلکہ ان کے عمل کےلئے حدود معین کرتا ہے۔ اس کی حدود کے تعین کرنے کا نام اصطلاح اسلام میں شریعت یا قانونِ الٰہی ہے۔ خودی خواہ مسولینی کی ہو یا ہٹلر کی۔ اگر وہ قانونِ الٰہی کی پابند ہوجائے تو مسلمان ہوجاتی ہے .... حدودِ خودی کے تعین کا نام شریعت ہے“۔ حضرت اقبالؒ مسلمانوں کے ہاں قوتِ عمل کے فقدان پر کڑھتے ہیں اور اسی امر کو ان کے زوال کی وجہ گردانتے ہیں جو ان کے اندر قوت، استحکام اور صلابت پیدا نہیں ہونے دے رہا....ع
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
تحریکِ پاکستان کا اگر بغور مطالعہ کیاجائے تو قائداعظم محمد علی جناح کی روشن مثال ہمیں نظر آتی ہے جنہوں نے تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود صرف اور صرف اپنی ہمت،عزم اور حوصلے کی بناءپر ہمارے لئے نئے وطن کا حصول ممکن بنایا۔ آخری لمحے تک برطانوی قیادت قائداعظم سے چڑ کھاتی تھی اور کئی جگہ اس کا اظہار بھی نظر آتا ہے۔ مثلاً لارڈ ویول1944 میں بھی قائداعظمؒ کی مستقل مزاجی سے خائف نظر آتے ہیں اور اپنا حسد اور خبثِ باطن مارچ 1944 کی اپنی ڈائری میں چھپا نہیں پاتے اور کہتے ہیں کہ ” جناح درحقیقت مسلمانانِ ہند کی سوچ کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ وہ تو شائد خود بھی مسلمان نہیں ہیں“۔ اتنا بڑا الزام اس شخص پر کہ جو صرف اور صرف خدا کے سامنے جوابدہ تھا اور سمجھتا تھا کہ وہی ایک حقیقتِ کبریٰ ہے جس کی رضا کیلئے وہ دن رات ایک کئے ہوئے تھا۔
اوائل 1947 تک برطانوی حکمرانوں اور عہدیداروں کی قائداعظم کے بارے میں رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی اور وہ پاکستان کو ایک خیالِ خام تصور کرتے تھے PATHICK LAWRENCE نے لارڈ ویول کو 2جنوری 1947 کو لکھا:
\\\"I Agree with you that Pakistan is a quite unworkable proposition\\\"
کانگریس کی جناح دشمنی تو سب پر عیاں تھی۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر پا رہے تھے کہ ایک شخصِ واحد اس قدر مو¿ثر اور مضبوط کیسے ہوسکتا ہے کو جو جھکتا ہے نہ بکتا ہے۔ دشمن تو دشمن اپنے بھی قائداعظم کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔تقریباًتمام مسلم مذہبی قیادت اور مذہبی جماعتیں قائداعظم کی مخالفت کر رہی تھیں۔ حتیٰ کہ خاکسار تحریک جس کا بنیادی محور” عسکریت“ تھا اور جو یہ سمجھتی تھی کہ مسلمانوں کے زوال کی بنیادی وجہ عسکریت کا ترک کردینا ہے کے ایک کارکن رفیق صابر مزنگوی (Mazangvi ) نے26 جولائی1943 کو قائداعظم کی رہائش گاہ میں گھس کر ان پر قاتلانہ حملہ کرڈالا۔ یہ تمام چیزیں قائداعظم کو نفسیاتی اور جسمانی طورپر گرانے اور کمزور کرنے کی ایک بہت بڑی سازش کا حصہ تھیں مگر قائداعظم نے اپنے مقصدِ اولیٰ سے لمحہ بھر کیلئے بھی اپنی نظر نہیں ہٹائی اور اپنی تمام توانائیاں اورکوششیں اُس کے حصول کی خاطر جھونک دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ کر دکھایا جس کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔
آج کا چیلنج بھی یہی ہے کہ ہم جشنِ آزادی پر تقاریر، سیمینارز اور ٹی وی ٹاک شوز تک ہی اپنے آپکو محدود نہ رکھیں بلکہ اقبالؒ اور قائدؒ کا پیغامِ عمل لیکر آگے بڑھیں۔ ذوقِ عمل سے بیگانہ ہو جانا آج کے دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کیلئے کافی نہیں۔ ہمیں اپنی علمی میراث جس سے ہمارا رشتہ توڑنے کی کامیاب سازش کی گئی تھی سے ایک بار پھر اپنا ناطہ جوڑنا ہے۔ ہمیں اس سفر میں اپنے رہبر اور رہنما بھی وہ چننے ہیں کہ جو ذوقِ عمل سے شناسا ہوں۔ علامہ اقبال نے درست ہی تو کہا تھا کہ زندگی کی آبرو صلابت اور سختی ہے اور نا پختگی انسان کی عاجزی اورذلت کا باعث ہے....
در صلابت آبروئے زندگی است
ناتوانی، ناکسی، ناپختگی است
مزیدخبریں